نواز طاہر :
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا الیکشن رکوانے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ سنی اتحاد کونسل جو اس وقت پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہی ہے، اپنے 27 ارکان کے حلف کو جواز بنا کر انتخاب موخر کرانا چاہتی تھی۔ لیکن آئین اور قواعد کے خلاف ہونے والی اس کوشش کو پذیرائی نہ مل سکی اور پنجاب کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کا عمل مکمل ہوگیا۔
مسلم لیگ (ن) کے ملک احمد خان 225 ووٹوں سے اسپیکر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ جبکہ (رات ساڑھے نو بجے) ان سطور کے لکھے جانے تک ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب نہیں ہوا تھا۔ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کا ساڑھے 5 سالہ راج ختم ہوگیا اور صوبے کے معاملات ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ میں آ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے الیکشن کو اس نقطے پر رکوانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ ابھی اس جماعت کے 27 ارکان کا حلف نہیں ہوا، لہذا یہ الیکشن موخر کروایا جائے۔
ایسی صورت میں قائد ایوان کا الیکشن بھی نہیں ہو سکے گا مگر ایسا نہیں ہو سکا اور نہ ہی اس جماعت نے ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ یا بائیکاٹ کیا۔ بلکہ اس عمل میں حصہ لیا۔ اسپیکر کے لیے ملک احمد خان بھچر جبکہ ڈپٹی اسپیکر کے لیے معین ریاض قریشی نے مسلم لیگ (ن) کے اسپیکر کے لیے ملک محمد احمد خان اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے اسی جماعت کے زیر اقبال چنڑ کا مقابلہ کیا۔
طے شدہ شیڈول کے تحت پنجاب اسمبلی کا اجلاس شام چار بجے کی بجائے ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے ہوا، جس کی صدارت پی ٹی آئی کے ہنگامہ خیز دور میں بننے والے اسپیکر محمد سبطین خان نے کی۔ اجلاس شروع ہونے سے قبل ہفتے کو بھی جمعہ کی طرح سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے۔ جبکہ اس روز مزید سختی کی گئی تھی کہ پنجاب اسمبلی کے اسٹاف کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس قلعہ بند طرز کے سیکیورٹی انتظامات کے دوران پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کو بھی مرکزی دروازے کے باہر مال روڈ پر روک لیا گیا اور اسمبلی کے سیکیورٹی افسر کو بھی پولیس کی غیر معمولی سیکیورٹی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ اسے حراست میں لیے جانے تک کی نوبت بھی آگئی۔
اجلاس کے دوران یہ قانونی اور آئینی نقطہ بھی اٹھایا گیا کہ جب ایوان کے ارکان کی تعداد 371 ہے اور اس میں سے 27 ارکان کا حلف نہ اٹھایا تو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کس طرح ہو سکتا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے رانا افتاب احمد خان نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے اسپیکر سے مطالبہ کیا کہ وہ اتنی تعداد میں ارکان کے غیر موجودگی میں کس طرح دونوں آئینی عہدوں پر الیکشن کروائیں گے، اس لیے اگر یہ الیکشن کروایا بھی جاتا ہے تو اسے عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔
اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے ملک احمد خان نے وضاحت کی کہ ملکی تاریخ میں ایسی صورتحال پہلی بار سامنے آئی ہے جس کی آئین اور قانون میں وضاحت نہیں ہے لیکن آئین میں متعین پارلیمانی رہنما اصولوں میں واضح کیا گیا ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے الیکشن سے پہلے اس ایوان میں کوئی اور ایجنڈا ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی بات کی جا سکتی ہے، لہذا سب سے پہلے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا الیکشن ہوگا۔ اس کے بعد کوئی رکن ایوان میں کسی بھی نقطہ پر اظہار خیال کر سکتا ہے۔
اس ضمن میں آئین پاکستان کا حوالہ دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا کہ ان آزاد اراکین (سنی اتحاد کونسل) کی مخصوص نشستوں کا فیصلہ الیکشن کمیشن ہے کرنا ہے اور ابھی اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا جن 27 اراکین کا حق استعمال نہ ہو سکنے کی بات کی جا رہی ہے ان کا تاحال نوٹیفکیشن ہی نہیں ہوا۔ جب ان کا نوٹیفکیشن ہی نہیں ہوا تو وہ ایوان کے رکن کی حیثیت سے یہ حق استعمال کرنے سے کس طرح محروم قرار دیے جا سکتے ہیں؟
یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے اور یہ معاملہ اس ایوان میں زیر بحث ہی نہیں لایا جا سکتا۔ جہاں تک 27 ارکان کے ایوان میں غیر موجود ہونے سے ایوان نامکمل ہونے کی صورتحال پہلی بار پیش ہونے کا معاملہ ہے تو اس کے لیے واضح مثال موجود ہے کہ جب بانی پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے پر پی ٹی آئی کے بہت سے اراکین نے استعفیٰ دیے تھے تو ایوان میں ارکان بہت کم ہو گئے تھے۔ مگر اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور قائد ایوان کا الیکشن اس وقت بھی ہوا تھا۔ اس لیے یہاں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا الیکشن ان 27 ارکان کی میں غیر موجودگی میں بھی ہو سکتا ہے۔
اسپیکر محمد سبطین خان نے واضح کیا کہ نماز مغرب کے بعد وہ آئین پرغور کرکے کاروائی شروع کریں گے۔ نماز مغرب کے وقفے کے بعد اسپیکر نے واضح کیا کہ آج کے اس اجلاس میں صرف اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا الیکشن ہونا ہے۔
میں اسپیکر کا الیکشن کروانے کے بعد ذمے داریوں سے سبکدوش ہو جاؤں گا اور نئے منتخب ہونے والے اسپیکر ڈپٹی اسپیکر کا الیکشن کروائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج اگر میں الیکشن کی کارروائی موخر کرتا ہوں تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ شاید میں اسپیکر کی کرسی پر مزید کچھ روز چپک کر بیٹھنا چاہتا ہوں اور یہ میں کسی صورت نہیں چاہتا کہ تاریخ اس طرح لکھی جائے۔