سید حسن شاہ:
لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کے خلاف درج مقدمات ایک ایک کرکے ختم ہو رہے ہیں۔ عزیر بلوچ کے خلاف 2004ء میں قتل کیس سے شروع ہونے والا سلسلہ 2014ء میں مجموعی طور پر 61 سنگین مقدمات پر تھما۔ اس دوران عزیر بلوچ کے خلاف لیاری آپریشن، رینجرز اہلکاروں کے قتل، ارشد پپو قتل کیس، پولیس تھانوں پر حملے اور اغوا برائے تاوان سمیت دہشت گردی کے ہائی پروفائل مقدمات درج کیے گئے۔ اب عزیر بلوچ کے باہر آنے کا راستہ صاف ہونے لگا ہے۔
اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ 2020ء سے اب تک عزیر بلوچ تقریباً 40 مقدمات میں بری ہوچکا ہے۔ ٹھوس ثبوت و شواہد نہ ہونے اور گواہوں کی جانب سے شناخت نہ کیا جانا مقدمات ختم ہونے کی وجہ بننے لگے ہیں۔
دستیاب معلومات کے مطابق لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کے خلاف 2004ء میں مقدمات درج ہونے کا آغاز ہوا تھا اور 2014ء تک مقدمات کی تعداد لیاری کے مختلف تھانوں میں 61 تک جا پہنچی۔ تاہم لیاری میں عزیر بلوچ کے نام کی دہشت ہونے کے سبب پولیس اسے گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔
عزیر بلوچ کے خلاف درج ہائی پروفائل مقدمات میں ارشد پپو قتل کیس، رینجرز کے اہلکاروں کا قتل، لیاری آپریشن اور تاجروں کے بچوں کے اغوا برائے تاوان سمیت دہشت گردی کے مقدمات شامل تھے۔ جبکہ قتل، اقدام قتل، پولیس مقابلہ، غیرقانونی اسلحہ، بھتہ خوری، پولیس پر حملہ، فائرنگ سے خوف و ہراس پھیلانے، پولیس تھانوں پر حملے سمیت سنگین جرائم اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات بھی شامل ہیں۔ مذکورہ مقدمات کلری، چاکیواڑہ، کلاکوٹ، بغدادی، پاک کالونی سمیت دیگر تھانوں میں درج کیے گئے۔
عزیر بلوچ کے خلاف درج مقدمات میں 22 مقدمات لیاری آپریشن کے دوران ہونے والے واقعات کے ہیں۔ جن میں زبردستی دکانوں کو بند کرانے، قتل، فائرنگ کرکے شہریوں کو گھروں میں محصور کرنے، پولیس موبائل پر فائرنگ اور تھانوں پر حملے کی دفعات شامل ہیں۔ مذکورہ مقدمات میں عزیر بلوچ کے ساتھیوں کو بھی نامزد کیا گیا۔ جن میں ظفر بلوچ، شاہجہان بلوچ، یوسف بلوچ، غفار عرف ماما، نور محمد عرف بابا لاڈلہ، شاہد مکس پتی، تاج محمد عرف تاجو، اسماعیل اصفہانی، شکیل بلوچ، صدیق، فہد پٹھان، دوست محمد لاسی، زاہد لاڈلہ، ملا نثار، محمد شاہد، عبدالجبار عرف لنگڑا، شاہد الرحمان عرف ایم سی بی، آصف نیازی، نعیم، شفیع پٹھان، شیر علی، عبدالرؤف، منظور، فاروق، قطب شاہ، محمد ریحان، صالح عثمان، عبدالقادر، سعید پٹھان، عمر کچھی، شکیل، وسیع اللہ لاکھو و دیگر شامل ہیں۔
پولیس نے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کے خلاف مقدمات کا پہاڑ تو کھڑا کیا۔ تاہم عدالتوں میں پراسیکیوشن اور تفتیشی افسران الزامات ثابت کرنے میں ایک ایک کرکے ناکام ہوتے جارہے ہیں۔ اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ وہ 2020ء سے اب تک تقریباً 40 مقدمات میں بری ہوچکا۔ ان مقدمات میں لیاری آپریشن، رینجرز اہلکاروں کا قتل، اغوا برائے تاوان، دھماکہ خیز مواد، غیر قانونی اسلحہ و دیگر شامل ہیں۔ جبکہ پراسیکیوشن اور تفتیشی حکام اب تک عزیر بلوچ کوکسی ایک مقدمہ میں بھی سزا نہیں دلاسکے۔ واضح رہے کہ ابتدا میں عزیر بلوچ کی گرفتاری 2016ء میں عمل میں لائی گئی۔ اس کے بعد عزیر بلوچ کا جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان ریکارڈ کرایا گیا، جس میں اس نے اپنے تمام جرائم کا انکشاف کیا۔ مگر اس کا یہ اعترافی بیان بھی بے سود ثابت رہا۔ عزیر بلوچ کے مقدمات میں بری ہونے کے اسباب کی بات کی جائے تو ٹھوس ثبوت و شواہد کی عدم دستیابی اور گواہوں کے بیانات میں تضاد ہونا شامل ہے۔ جبکہ چند مقدمات میں تو گواہان عدالتوں میں بیانات ریکارڈ کرانے کیلئے پیش تک نہ ہوئے۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عزیر بلوچ کی جانب سے بریت کی درخواستیں جمع کرائی گئیں اور شواہد نہ ہونے سے وہ با آسانی بری ہوگیا۔
لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کے خلاف ارشد پپو قتل کیس، دھماکہ خیز مواد، اسلحہ ایکٹ، پولیس مقابلوں، دہشت گردی سمیت 20 سے زائد مقدمات اب بھی التوا کا شکار ہیں۔ ان مقدمات کے تاخیر کی وجوہات میں وکلا کی جانب سے مختلف اوقات میں جمع کرائی گئی درخواستوں، سماعت ملتوی کرنے کی درخواستوں اور گواہان پولیس اہلکاروں کی مسلسل عدم حاضری ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عوام کے محافظ بھی گینگ وار کے سرغنہ کیخلاف عدالت میں آ کرگواہی دینے سے کترانے لگے ہیں۔ عزیر بلوچ کے خلاف درج مقدمات میں پرائیوٹ گواہان کو شامل نہیں کیا گیا۔ پولیس افسران و اہلکاروں کی لیاری میں رہائش ہونے کی وجہ سے وہ عزیر بلوچ کے خلاف بیانات دینے سے خوف کا شکار ہیں۔ لیاری گینگ وار کے خوف سے اب تک بیانات ریکارڈ کرانے والے گواہان کی جانب سے عزیر بلوچ کو واقعات میں ملوث قرار نہیں دیا جاسکا۔ جس کے سبب عزیر بلوچ کے خلاف درج مقدمات کمزور پڑنے لگے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ عزیر بلوچ، باقی مقدمات میں بھی شواہد کی کمی اور گواہوں کے نہ آنے کے سبب بری ہوجائے گا۔