نواز طاہر :
انتخابی نتائج میں مبینہ تبدیلیاں کیخلاف پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران ڈنڈے اور اولے پڑ گئے۔ پی ٹی آئی بانی کے اعلان کے مطابق کیا جانے والا احتجاج خاصا ٹھنڈا رہا۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں احتجاج کرنے والے اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے، پولیس کے ہتھے چڑھتے گئے جن میں عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن اور استحکامِ پاکستان پارٹی کے قائدین کیخلاف الیکشن لڑنے والے امیدوار بھی شامل ہیں جن کے ساتھ کارکنوں کی تعداد کم ہونے کے باعث پولیس فورس کو ان کی گرفتاریوں میں مشکلات پیش نہ آئیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کے ووٹوں سے جیت کر صوبائی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین کہلانے والوں میں سے کوئی بھی دکھائی نہیں دیا اور نہ ہی ہفتے کی رات تک کسی کی گرفتاری کی اطلاعات مل سکیں۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی بانی نے اسمبلیوں کے حلف کے عمل کے دوران ہی دو مارچ ہفتے کو ملک گیر سطح پر انتخابی نتائج تبدیل کرنے اور الیکشن عمل کے فارم پنیتالیس اور سینتالیس میں مبینہ طور پر پائے جانے فرق اور انتخابی نتائج تبدیل کیے جانے کیخلاف ملک گیر احتجاج کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے مطابق ملک کے دیگر حصوں کی طرح پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی احتجاج کیا گیا۔
اس احتجاج کا مرکز مختلف امیدواروں نے اپنے حلقوں کو بنایا اور مرکزی اجتماع لاہور ہائی کورٹ کے باہر شاہراہِ قائد اعظم پر جی پی او چوک کو قرار دیا گیا تھا۔ جہاں پی ٹی آئی کے کارکنان اپنے رہنمائوں، (امیدواروں) کے ساتھ پچاس، سو، ڈیڑھ سو اور دو سو کی ٹولیوں میں جمع ہو کر پہنچے۔ لیکن زیادہ تر جی پی او چوک نہیں پہنچ سکے۔ ان میں لاہور سے پی ٹی آئی کے نام پر ووٹ حاصل کر کے صوبائی اسمبلی کے اراکین دکھائی نہیں دیئے (جو اس وقت صوبائی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین کہلاتے ہیں ) جبکہ قومی اسمبلی کے منتخب ہونے والے اراکین اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے باعث شریک نہیں ہوئے۔ البتہ الیکشن میں کامیاب نہ ہونے والے قانون دان امیدوار سلمان اکرم راجہ موجود تھے۔
پی ٹی آئی کی طرف سے کارکنوں کو انفرادی اور ریلیوں کی شکل میں دن گیارہ بجے پہنچنے کا وقت دیا گیا تھا جہاں پی ٹی آئی کے حامی وکلا نے ان کا استقبال کرنا تھا۔ لیکن گیارہ بجے سے پہلے ہی پولیس کی بھاری نفری پہنچ چکی تھی۔
پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ امن و امان برقرار رکھنے کیلئے پی ٹی آئی کے مقامی رہنمائوں سے احتجاج کی کال واپس لینے کیلئے کہا گیا۔ لیکن انہوں نے بات نہیں مانی۔ اس کے بعد پولیس نے اپنے انداز سے کارکنوں کی جمع ہونے سے روکا۔ کسی ٹولی اور ریلی کو وائی ایم سی اے چوک میں روک لیا گیا، تو کسی کو ای پلومر سے پیچھے روکا گیا۔ جبکہ انہیں اپنے اپنے علاقوں سے جی پی او چوک کے قریب پہنچنے سے پہلے راستے میں کہیں نہیں روکا گیا اور وہ نعرے بازی کرتے ہوئے آئے۔
جی پی او چوک پہنچنے والے اراکین کی تعداد انتہائی کم تھی اسی دوران پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔ کارکنوں نے انارکلی، نیلا گنبد کی گلیوں میں بکھر کر پولیس کو بے بس کرنے اور مختلف راستوں سے جی پی او چوک پہنچنے کی کوشش کی جس دوران ایک درجن سے زائد کارکنان کو حراست میں لے گیا۔ جن رہنمائوں کو حراست میں لیا گیا ان میں سپریم کورٹ بار کے سابق سیکریٹری آفتاب باجوہ اور میاں شہباز شریف کے خلاف الیکشن لڑنے والے عظیم افضل پاہٹ ، وزیراعلیٰ پنجاب کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے شہزاد فاروق، استحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے اعجاز انور بٹر، مسلم لیگ ن کے رہنما سمیع اللہ خان کے مقابلے میں ہارنے والے یاسر گیلانی، علیم خان سے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں شکست کھانے والے حافظ ذیشان رشید اور پی ٹی آئی وال سٹی کے صدر عمران حنیف کے شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن کے فارم نمبر سینتالیس کے مطابق گرفتارہونیوالے پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے اپنے حلقوں سے دو لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے لیکن انتخابی نتائج مبینہ طور پر تبدیل کیے جانے کیخلاف احتجاج میں پانچ ہزار سے زائد افراد بھی جمع نہیں ہوئے۔ جن افراد کو گرفار کیا گیا تاحال پولیس کی طرف سے ان کے بارے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ انہیںکس قانون اور ضابطے کے تحت گرفتار کیا گیا جبکہ دفعہ ایک چوالیس کا نفاذ ابھی چند روز قبل ہی عدالت عالیہ کی طرف سے کالعدم قراردیا گیا تھا۔ ہفتے کے روز پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں جاری تھیں جس دوران اولے برسنے سے ان جھڑپوں میں وقفہ آگیا اور زیادہ تر مظاہرین واپس لوٹ گئے۔