امت رپورٹ :
سوشل میڈیا کے ذریعے فساد، شر انگیزی اور جھوٹا پروپیگنڈا پھیلانے والوں کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا ہے۔ اہم ذرائع نے’’امت‘‘ کو بتایا کہ اعلیٰ سطح پر بے مہار سوشل میڈیا کا سدباب کرنے کے لیے ٹھوس پالیسی مرتب کی گئی ہے، جس کے تحت فساد، شر انگیزی اور انارکی پھیلانے والے واٹس ایپ گروپوں کی کڑی نگرانی شروع کردی گئی ہے۔
واٹس ایپ اور فون کالز کے حوالے سے نئے کمیونیکیشن رولز پر عملدرآمد کا آغاز ہوچکاہے۔ اب تمام واٹس ایپ اور فون کالز ٹیپ کی جائیں گی اور یہ ریکارڈ محفوظ رکھا جائے گا۔ واٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر (ایکس) اور سماجی رابطوں کی تمام ویب سائٹس کی کڑی نگرانی کی جائے گی۔ کسی بھی شرانگیز پوسٹ، پروپیگنڈے ، غلط پیغام یا جھوٹی معلومات دینے والے کے خلاف فوری ایکشن ہوگا۔ تمام ڈیوائسز اور اکائونٹس براہ راست متعلقہ وزارت سے منسلک کردیئے جائیں گے۔ کسی بھی سیاسی یا مذہبی معاملے پر جھوٹی خبر یا معلومات پھیلانے والے کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ قانون فوری حرکت میں آئے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بے قابو سوشل میڈیا کے سدباب کے لیے پچھلے چند ماہ سے مشاورت کا عمل جاری تھا اور آخر کار فیصلہ کن پالیسی ترتیب دے دی گئی ہے۔ کیونکہ معاملہ قابو سے باہر ہو رہا تھا۔ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے خلاف اگرچہ سخت قوانین موجود ہیں، تاہم اصل مسئلہ ان پر فوری عملدرآمد کا ہے، جو نہیں ہورہا تھا۔
سوشل میڈیا کی رفتار کیونکہ روشنی سے بھی زیادہ تیز ہے، جو منٹوں میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے، اس کے لئے اسی رفتار سے ایکشن کی ضرورت بھی تھی۔ ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے ذہنوں کو پراگندہ کیا جارہا ہے، خاص طور پر نوجوان نسل اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک منظم طریقے سے ملک میں بدامنی پھیلا کر صورتحال کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس خطرناک رجحان کا قلع قمع کرنے کے لیے ٹھوس پالیسی کی ضرورت تھی۔
دنیا کے کسی ملک میں بھی سوشل میڈیا کے ذریعے فساد اور انارکی پھیلانے کی اجازت نہیں ہے۔ پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے مرتکب سوشل میڈیا اکائونٹس کا تعلق دشمن ممالک کے نیٹ ورک کے ساتھ بھی نکلا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ کس طرح ایک جھوٹی اور شرانگیز پوسٹ کو امریکہ، برطانیہ، بھارت اور بعض دیگر ممالک میں قائم نیٹ ورک آناً فاناً پوری دنیا میں پھیلا دیتا ہے۔
چین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب ، روس، ایران اور مصر سمیت بعض دیگر ممالک سوشل میڈیا پر سختی کے حوالے سے عموماً خبروں میں رہتے ہیں۔ لیکن اگر ریسرچ کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ایسے ممالک، جو آزادی اظہار رائے کے چیمپئن بنتے ہیں، وہاں بھی سوشل میڈیا کے لیے ریڈ لائن رکھی گئی ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں بھی سوشل میڈیا کے ذریعے فساد، جھوٹے پروپیگنڈے اور شر انگیزی کی اجازت نہیں، ایسے عمل کے مرتکب افراد کو سخت سزائوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مثلاً دوہزار اٹھارہ میں برطانیہ میں تین ہزار تین سو سوشل میڈیا صارفین کو گرفتار کیا گیا۔ کیونکہ انہوں نے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔ ان میں ایک نوجوان خاتون بھی شامل تھی۔ لیور پول سے تعلق رکھنے والی چیلسی رسل کو انسٹاگرام پر ایک نسل پرستانہ گیت پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ چیلسی نے کار حادثے میں ہلاک ہونے والی اپنی ایک انیس سالہ سہیلی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے یہ گیت پوسٹ کیا تھا۔ چیلسی کو گرفتار کرکے مقدمہ چلایا گیا۔ وہ قصور وار قرار پائی اور اسے سزا سنائی گئی۔
امریکہ میں بھی ہائوس کمیٹی نے ٹک ٹاک کے خلاف کریک ڈائون بل کی منظوری دی ہے۔ اس بل کی حمایت میں پچاس سے جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا۔ جبکہ تین برس قبل ترکی کی پارلیمان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک قانون منظور کیا۔ اس قانون کے تحت ایسی تمام سوشل میڈیا فرمز جن کے دس لاکھ سے زیادہ صارفین ہیں، ان کے لیے ترکی میں دفتر کھولنا لازم ہے۔ تاکہ بوقت ضرورت حکومت کی درخواست پر مواد کو ہٹایا جاسکے۔ اگر یہ کمپنیاں ایسا کرنے سے انکار کرتی ہیں تو ان پر جرمانے عائد کیے گئے ہیں۔ قانون سازی کے تحت سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صارفین کا ڈیٹا ترکی میں اسٹور کریں۔
اس کے برعکس پاکستان میں سوشل میڈیا کو مادر پدر آزادی میسر ہے۔ یہاں سوشل میڈیا پر اس قدر نفرت انگیز اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے ، جس سے کوئی بھی ملک خانہ جنگی کی طرف جاسکتا ہے۔