امت رپورٹ :
ماہ رمضان، نو مئی کے کرداروں پر بھاری ہوگا۔ اس مہینے کے دوران اس سلسلے میں بعض اہم گرفتاریاں خارج از امکان نہیں۔ سزا یافتہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی پابندی کا سلسلہ بھی دراز ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان نے جیل کو پارٹی کا مرکزی دفتر بنا رکھا ہے۔ دنیا میں مثال نہیں ملتی کہ کوئی قیدی جیل میں بیٹھ کر کھلے عام اپنا نیٹ ورک چلا رہا ہو۔
نو مئی کے واقعات میں عملی طور پر حصہ لینے والے ایک سو سے زائد ملزمان کے مقدمات اس وقت ملٹری کورٹس کے پاس ہیں۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق ان میں سے اکثریت کے کیسز مکمل ہوچکے ہیں اور صرف فیصلہ سنانے کا مرحلہ باقی ہے۔ اس میں بنیادی رکاوٹ سپریم کورٹ کا حکم ہے، جس میں اگرچہ ملٹری کورٹس کو اپنی کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی، تاہم فیصلہ سنانے سے روکا گیا تھا۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت پٹیشن کی جلد سماعت کا امکان ہے تاکہ ملٹری کورٹس، مقدمات کے فیصلے سناسکیں۔
سانحہ نو مئی کے حوالے سے ملٹری کورٹس کا سامنا کرنے والے ایک سو سے زائد ملزمان میں سے زیادہ تر وہ ہیں ، جنہوں نے پارٹی قیادت کے اشتعال دلانے پر شہدا کی یادگاروں اور فوجی تنصیبات پر حملے کئے۔ ان میں سے بہت سے موقع پر یا پھر ناقابل تردید ویڈیو شواہد اور جیوفینسنگ کے ذریعے پکڑے گئے تھے۔ یہ عام کارکنان یا تیسرے چوتھے درجے کے عہدیداران ہیں، جن میں عمران خان کا بھانجا حسان نیازی بھی شامل ہے۔ تاہم سانحہ نو مئی کے مرکزی منصوبہ ساز اور سہولت کار قرار دیے جانے والوں کی بڑی تعداد مفرور ہے، یا انہوں نے ضمانتیں کرا رکھی ہیں۔ جبکہ متعدد اسمبلیوں میں پہنچ چکے ہیں۔
یہاں یاد دلاتے چلیں کہ علی امین گنڈاپور بھی نو مئی کے واقعات میں مطلوب تھے۔ لیکن وہ گرفتار نہیں ہوسکے تھے۔ ایک عرصہ مفرور رہنے کے بعد اچانک منظر عام پر آئے۔ کاغذات نامزدگی داخل کرائے اور الیکشن جیتنے کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا بن گئے۔ جو پولیس ان کی تلاش میں تھی اب وہی اُنہیں پروٹوکول دیتی ہے اور وہ صوبے میں بیٹھ کر مرکز کو للکار رہے ہیں۔ لیکن اب یہ للکار جلد التجا میں تبدیل ہونے کا امکان ہے۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ نو مئی کے مرکزی ملزم کو پہلے الیکشن لڑنے کی اجازت دینا اور پھر اس کا وزیراعلیٰ بن کر مونچھوں کو بل دیتے ہوئے ڈکرانا، ریاست کے لئے کسی تازیانے سے کم نہیں۔ بہت زیادہ امکان ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سمیت نو مئی میں ملوث اسمبلیوں میں پہنچنے والے دیگر پی ٹی آئی رہنمائوں کو ماہ رمضان کے دوران ہی گرفتار کرلیا جائے اور پھر تیزی کے ساتھ ان کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ اگر خیبرپختونخوا پولیس نے علی امین گنڈا پور کو گرفتار کرنے میں پس و پیش سے کام لیا تو پھر وفاقی وزیر داخلہ کی ہدایت پر یہ ’’فریضہ‘‘ ایف سی کو اداکرنا پڑے۔ ویسے بھی اب مشیر داخلہ کا قلمدان محسن نقوی نے سنبھال لیا ہے، جو وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر نو مئی کے ملزمان کے خلاف کریک ڈائون کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتے ہیں۔
سانحہ نو مئی میں ملوث دو درجن سے زائد جن پی ٹی آئی رہنمائوں کو عدالت نے اشتہاری قرار دیا تھا، ان میں میاں اسلم اقبال، حماد اظہر، فرخ حبیب، زبیر خان نیازی، اعظم سواتی، مراد سعید، علی امین گنڈاپور، حسان نیازی، حافظ فرحت عباس، واثق قیوم، عندلیب عباس اور دیگر شامل ہیں۔ الیکشن کے بعد ان میں سے کئی منظر عام پر آگئے تھے لیکن گرفتاری کے ڈر سے دوبارہ غائب ہوگئے۔
مثلاً میاں اسلم اقبال کو پارٹی نے وزیراعلیٰ پنجاب کا امیدوار منتخب کیا تھا، لیکن وہ گرفتاری کے خوف سے نہیں آئے اور پی ٹی آئی المعروف سنی اتحاد کونسل کو اپنا امیدوار تبدیل کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح مفرور اعظم سواتی بھی ایک دو مواقع پر علی امین گنڈاپور کے ساتھ دکھائی دیئے، اب غائب ہیں۔ حماد اظہر اور مراد سعید کو الیکشن کے بعد بھی منظر عام پر آنے کی جرات نہیں ہوسکی۔ تاہم دونوں اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس پر پوری طرح متحرک ہیں۔ فرخ حبیب اور عندلیب عباس نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرکے دامن بچالیا تھا۔ گرفتار حسان نیازی پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے۔
سانحہ نو مئی میں مطلوب ان اشتہاریوں میں سے اب بعض مظاہروں کی قیادت کرتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ لاہور میں پچھلے مظاہرے کی قیادت زبیر نیازی نے کی تھی، جو عمران خان کا قریبی عزیز اور نو مئی کے واقعہ میں مطلوب ہے۔ ان مطلوب و مفرور پی ٹی آئی رہنمائوں میں سے ایک بڑی تعداد کو ماہ رمضان کے دوران گرفتار کئے جانے کا قوی امکان ہے۔ ساتھ ہی یہ پالیسی بھی ترتیب دی گئی ہے کہ اگر احتجاج کے نام پر پھر فساد کرنے کی کوشش کی گئی تو سختی سے کچل دیا جائے گا۔
ریاست کے ساتھ ایک بڑا مذاق یہ بھی ہے کہ متعدد کیسوں میں سزا یافتہ عمران خان نے اڈیالہ جیل کو اپنا مرکزی پارٹی دفتر بنا رکھا ہے۔ دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی کہ کوئی سزا یافتہ قیدی اس طرح کھلے عام بیرونی دنیا سے رابطے میں رہے اور غیر ملکی جرائد میں اس کے مضامین بھی چھپتے رہیں جبکہ بظاہر وہ جیل میں قید بامشقت کاٹ رہا ہو۔ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہر دوسرے تیسرے روز ملاقات کرنے والے ناصرف قیدی کے ساتھ بیٹھ کر گپیں مارتے ہیں، بلکہ باہر آکر بانی پی ٹی آئی کا پیغام بھی سنایا جاتا ہے۔ جس میں دوبارہ احتجاج کرنے سمیت دیگر شر انگیزیاں شامل ہوتی ہیں۔
جیل میں قید عمران خان کا ناصرف اکنامسٹ میں انٹرویو شائع ہوا بلکہ انہوں نے آئی ایم ایف کو ملک دشمنی پر مبنی خط بھی لکھا کہ پاکستان کو گرانٹ نہ دی جائے۔ دنیا میں ایسا کہاں ہوتا ہے؟ چنانچہ جگ ہنسائی ہورہی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اب یہ سلسلہ بند کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ جیل میں بیٹھ کر عمران خان کو انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
امکان ہے کہ عمران خان کے ساتھ ملاقاتوں پر مکمل پابندی لگادی جائے گی یا پھر ان ملاقاتوں کو محدود کردیا جائے گا، جبکہ ملاقاتیوں کو بھی پابند کیا جائے گا کہ وہ قیدی کی شرانگیزی کو باہر آکر بیان کرنے سے گریز کریں۔ فی الحال دہشت گردی کے خطرے کے تناظر میں عمران خان سے ملاقاتوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ پابندی کا یہ سلسلہ دراز ہوسکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انٹیلی جنس اطلاعات کی روشنی میں محکمہ داخلہ پنجاب نے عمران خان سمیت اڈیالہ جیل کے تمام قیدیوں سے ملاقاتوں پر دو ہفتے کے لئے پابندی عائد کی ہے۔ جیل میں سرچ آپریشن بھی کیا جائے گا۔