عمران خان :
ماہ رمضان میں برانڈڈ کاسمیٹکس، الیکٹرانکس، جوتے، گھڑیوں اور دیگر مصنوعات کی جعلسازی کے خلاف بڑا کریک ڈائون شروع ہوا ہے۔ حالیہ عرصہ میں ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز آئی پی آر نے 50 سے زائد ہائی پروفائل کیس درج کر لیے۔ معروف کمپنیوں کے سامان کی کروڑوں روپے مالیت کی نقل ضبط کرکے ملوث کمپنیوں، تاجروں اور ایجنٹوں کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا۔ تاہم ڈائریکتوریذٹ جنرل آئی پی آر میں ماتحت عملے اور بعض ایجنٹوں کی ملی بھگت اعلیٰ حکام کی کوششوں پر مسلسل پانی پھیر رہی ہے۔ ملوث تاجروں اور ایجنٹوں کو ریلیف دینے کے لیے اپنے ہی قوانین کو توڑ مروڑ کا استعمال کئؤیے جانے کا بھی انکشا ف ہوا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز آئی پی آر نے برانڈڈ کاسمیٹکس، الیکٹرانکس، جوتے، گھڑیوں اور دیگر مصنوعات کی جعلسازی کے 50 سے زائد ہائی پروفائل کیس درج کر لیے ہیں۔ جبکہ اس ضمن میں عوام اور برانڈڈ کمپنیوں سمیت دیگر متعلقہ شعبوں کو ان قوانین سے آگاہی کے لیے سوشل میڈیا سمیت دیگر ذرائع استعمال کرنے شروع کردیے گئے ہیں ۔
کسٹم اور مارکیٹ کے معتبر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ڈائریکٹو ریٹ جنرل آف انٹی لیکچوئل پراپرٹی رائٹس (آئی پی آر) انفورسمنٹ کا قیام اس مقصد کے لئے کیا گیا تھا کہ ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کی مصنوعات کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ اور ہو بہو ان کی نقل جیسی مصنوعات کی غیر قانونی امپورٹ اور ایکسپورٹ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرکے اسمگلنگ جیسے اس جرم کی روک تھام کی جاسکے۔ تاہم یہ شعبہ اپنے قیام کے اغراض و مقاصد کو حاصل کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکا۔ جس کے نتیجے میں ایک ایسی مافیا پنپ چکی ہے جو کہ ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کی برانڈڈ مصنوعات کی نقل تیار کرکے ان کی امپورٹ اور ایکسپورٹ میں مصروف ہے۔ جبکہ ان جعلی مصنوعات پر لگنے والی ڈیوٹی بھی اپنی مرضی سے طے کروانے میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔
ذرائع کے بقول اس مافیا میں اصل مصنوعات کی نقول تیارکرنے والی کمپنیوں کے مالکان تاجر، ان کے کلیئرنگ ایجنٹ اور کسٹم کے بعض بدعنوان افسران شامل ہیں۔ جن میں خصوصی طور پر ایگزامنرز اور ویلیوایشن کرنے والے اپریزمنٹ کے افسران کی زیادہ تعداد شامل ہے۔ جن مصنوعات کی نقل زیادہ تعداد میں امپورٹ ہو رہی ہے، ان میں غیر ملکی کمپنیوں کی تیار کردہ معروف برانڈز کی گھڑیاں، الیکٹرونک کا دیگر سامان، گارمنٹس کی مصنوعات کے علاوہ فٹ ویئر وغیرہ شامل ہیں جن کی فرسٹ کاپی، سیکنڈ کاپی اور تھرڈ کاپی تیار ہو کر پاکستان میں امپورٹ کی جاتی ہے۔ جبکہ کچھ معروف برانڈز کی نقول پاکستان میں مقامی طور پر تیار کے بیرون ملک ایکسپورٹ کی جاتی رہی ہے۔
ذرائع کے بقول ڈائریکٹوریٹ آئی پی آر کسٹم کے افسران کی اپنے ہی قوانین سے واقفیت کا یہ عالم ہے کہ متعدد کارروائیوں میں جب معروف برانڈز کی نقل کی بھاری کھیپیں پکڑی گئیں تو ان کی کلیئرنس کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہی انہیں بلاک کرنے یا مقدمہ درج کرنے کے بجائے اس بات کا انتظار کیا گیا کہ ان کے در آمد کنندگان اور ایجنٹ کلیئرنس کا عمل شروع کروادیں۔ ڈائریکٹوریٹ کا یہ عمل آئی پی آر کے قوانین کی شق نمبر 680 کی خلاف ورزی خلاف ورزی ہے۔ اسی خامی کے ذریعے کئی کیس عدالتوں سے خارج ہوچکے ہیں اور جعلساز مافیا کو کروڑوں روپے کا فائدہ دیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول ڈائریکٹوریٹ میں کروڑوں روپے مالیت کے اخراجات ہوچکے ہیں جبکہ اس میں تعینات ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کے علاوہ انسپکٹر اور دیگر کسٹم افسران لاکھوں روپے کی پرتعیش مراعات حاصل کر رہے ہیں تاہم اسے موثر انداز میں چلانے میں ناکام ہوتے رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ڈائریکٹو ریٹ جنرل آف انٹی لیکچوئل پراپرٹی رائٹس (آئی پی آر ) انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے دفاتر لاہور اور کراچی میں قائم کئے گئے تاکہ سی پورٹس اور ڈرائی پورٹس پر آئی پی آر کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائیوں کے لئے عملہ متعین کرکے ان سے کام لیا جاسکے۔ اس کے لئے جدید جرائم سے نمٹنے کے لئے قوانین بھی بنا کر ادارے کے ڈومین میں شامل کردئے گئے۔ چونکہ معروف برانڈز کی نقل تیار کرکے فروخت کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کے لئے بننے والے آئی پی آر کے قوانین کا نفاذ اس لئے بھی کیا گیا تھا کہ یہ قوانین اور معاملہ دنیا بھر کی تجارت کی نمائندہ تنظیم ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تین مرکزی ستونوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اور اس قوانین پر عمل در آمد کروائے بغیر پاکستانی تجارت کو دنیا بھر میں وہ فروغ اور مقام حاصل نہیں ہوسکتا جو کہ کاپی رائٹ کے قوانین پر عمل در آمد کروانے کے بعد ہوسکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس وقت سی پورٹ اور ڈرائی پورٹ سے بڑے پیمانے پر برانڈڈ کمپنیوں کی مصنوعات کی نقل تیا رکر کے یہ سامان کے کنٹینر کلیئر کرائے جانے لگے۔ امپورٹ پالیسی کے برخلاف آنے والے سامان کو مس ڈکلیئر یشن کے ذریعے ڈیوٹیاں ادا کی جانے لگیں، ایس آر او ز نہ ہونے سے سامان پر ادا شدہ ڈیوٹی قومی خزانے میں جمع ہونے کے بجائے افسران میں تقسیم ہونا شروع ہوگئی۔
کسٹم ذرائع نے بتایا کہ برانڈڈ کمپنیوں کی ڈپیلیکٹ کو کلیئر کرانا امپورٹ پالیسی کے خلاف ہے کیوں کہ کسی بھی برانڈڈ کمپنی کے ڈپیلیکٹ کے حوالے سے کسٹم میں کوئی سیچوری ریگولیٹری آرڈر(ایس آر او) نہیں ہے جس کی مدد سے آنے والے کنٹینر پر ٹیکس ڈیوٹی ادا کی جاسکے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس کے لئے سی پورٹ اور ڈرائی پورٹ پر تعینات کسٹم افسران نے اپنی پالیسی مرتب کر رکھی ہے اور کسٹم افسران ،کلیئرنگ ایجنٹ اور امپورٹر کے ساتھ مل کر کنٹینر کو مس ڈکلیئر ظاہر کر کے ڈیوٹی کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ تاکہ پورٹ سے کنٹینر کو نکالا جاسکے اور کنٹینر پر ادا ہونے والی ڈیوٹی قومی خزانے میں جمع ہونے کے بجائے ڈیوٹی پرموجود کسٹم افسران میں تقسیم ہوجاتی ہے۔