امت رپورٹ:
اپنی بدترین غلطیوں کو سیاسی انتقام کے پروپیگنڈے میں چھپانے والی دروغ گو پی ٹی آئی کو تازہ جھٹکا پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے سے لگا ہے، جس نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے اس کی درخواست خارج کردی۔
عمران خان کے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد سے پی ٹی آئی کے تقریباً تمام سیاسی اور قانونی فیصلے غلط ثابت ہوتے آرہے ہیں۔ اس میں ایک بڑا رول پارٹی کی قانونی ٹیم کا بھی ہے، جس میں بظاہر چوٹی کے وکلا شامل ہیں۔
مخصوص سیٹوں سے متعلق کیس میں بھی تحریک انصاف کو منہ کی کھانی پڑی، جبکہ یہ فیصلہ پشاور ہائیکورٹ کا تھا، جسے پی ٹی آئی اپنی ہمددر عدالت قرار دیتی ہے۔ ٹریک ریکارڈ سے بھی بظاہر اس تاثر کو تقویت ملتی ہے۔ کیونکہ پشاور ہائیکورٹ کے متعدد فیصلے پی ٹی آئی کے حق میں آتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ملک کے کسی بھی حصے سے پکارنے والے پی ٹی آئی رہنما کو عموماً پشاور ہائیکورٹ سے راہداری ضمانت مل جاتی ہے۔
لیکن مخصوص سیٹوں کے کیس میں اسی پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست ردی کی ٹوکری میں پھینک دی۔ کیونکہ یہ اس قدرغیر آئینی و غیر قانونی مطالبہ تھا کہ پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ کے کسی ایک رکن نے بھی اس مطالبے کی حمایت نہیں کی اور پانچ ججوں نے متفقہ فیصلہ دیا۔ چونکہ یہ فیصلہ اپنے ہمدرد تصور کئے جانے والے کورٹ کی جانب سے آیا، سو پی ٹی آئی پر سکوت مرگ طاری ہے۔ اس کی بے لگام سوشل میڈیا ٹیم کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
اگر یہی فیصلہ سپریم کورٹ یا اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے آیا ہوتا تو ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو جانا تھا۔ جیل میں قید سزا یافتہ عمران خان اگرچہ پہلے بھی اپنی قانونی ٹیم کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ تازہ زخم پر وہ بھڑک اٹھے ہیں۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی کے دیگر رہنما سینہ کوبی کر رہے ہیں۔
شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ سنی اتحاد کونسل میں ضم ہونے کا فیصلہ غلط تھا۔ بیرسٹر علی ظفر بھی ان کی تائید کر رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پہلے یہ نکتہ ان وکلا کو سمجھ کیوں نہیں آیا؟ متذکرہ کیس میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کرنے والے قاضی انور اور علی ظفر جیسے جغادری و کلا پشاور ہائی کورٹ میں اس کا جواب نہ دے سکے کہ جب الیکشن ایکٹ دوہزار سترہ کی متعلقہ شق واضح طور پر کہتی ہے کہ کسی بھی پارٹی کو خواتین اور اقلیتی مخصوص نشستوں کے حصول کے لئے پہلے سے الیکشن کمیشن میں فہرست دینی ہوتی ہے ، جو سنی اتحاد کونسل نے جمع نہیں کرائی تھی، جس میں پی ٹی آئی نے خود کو ضم کیا ہے تو وہ کس منہ سے مخصوص نشستوں کا معاملہ عدالت لے کر آئے۔
یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کی نا اہلی کا پردہ چاک کر گیا کہ وکلا کی ایک فوج ظفر موج میں سے کسی کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ ایک ایسی پارٹی میں پی ٹی آئی کے انضمام سے آگے چل مخصوص نشستوں سمیت دیگر آئینی و قانونی مسائل جنم لیں گے، جس نے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا۔ حتیٰ کہ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ تک نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔ چونکہ سنی اتحاد کونسل انتخابی میدان میں موجود ہی نہیں تھی، لہذا اس نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے سرے سے کوئی فہرست ہی الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کرائی تھی۔
یہ بات پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم اور کور کمیٹی دونوں کو معلوم تھی۔ جبکہ یہ قانونی نقطہ عام تجزیہ نگار بھی تسلسل سے بیان کر رہے تھے۔ ایسے میں ملین ڈالرکا سوال ہے کہ پھر پی ٹی آئی کے بقراطی وکلانے یہ غلطی کیوں کی؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں اڈیالہ جیل کا قیدی بھی دیواروں سے سر ٹکرا رہا ہے۔ جبکہ دیگر پارٹی قیادت بھی خود سے ہی سوال کر رہی ہے کہ وہ کون تھا جس نے یہ غلط فیصلہ کرایا ؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ پی ٹی آئی کے وکلا نے فاش غلطی کی ہو اور اس کے نتیجے میں وہ عدالت میں اپنا کیس ہار گئے۔ اس سے قبل ’بلے‘ کے انتخابی نشان سے محروم ہونے میں بھی پی ٹی آئی کے وکلا کی غیر دانشمندانہ رائے شامل تھی۔ الیکش کمیشن کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم دیے جانے کے بعد جب دوبارہ افراتفری میں انٹرا پارٹی الیکش کرائے گئے تو تمام آئینی وقانونی پہلوؤں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا تھا۔
حیرت انگیز طور پر کسی وکیل نے یہ عقل نہیں دی کہ اس طرح کے لولے لنگڑے الیکشن گلے پڑ جائیں گے۔ اس کے برعکس جیل میں عمران خان سے مشاورت کرنے والی قانونی ٹیم نے انہیں یقین دلایا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے لئے چاہے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے، پی ٹی آئی کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان مل جائے گا۔ بانی پی ٹی آئی کا خیال تھا کہ جب اتنے نامور و کلا کہہ رہے ہیں تو یہ طریقہ درست ہی ہوگا۔ یوں انہوں نے اجازت دے دی۔
بعد ازاں نام نہاد پارٹی الیکشن منعقد کرائے گئے۔ کسی بھی شخص کو انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ الیکٹورل کالج بنایا گیا اور نہ ووٹروں کی فہرست شائع کی گئی۔ نہ ہی کسی سے کاغذاتِ نامزدگی طلب کیے گئے۔ جس پر پارٹی انتخابات کو فراڈ قرار دے کر الیکشن کمیشن میں چیلنچ کیا گیا۔ پھر وہی ہوا، قانون کی معمولی سمجھ رکھنے والوں کو بھی جس کا ادراک تھا۔ الیکشن کمیشن نے ناصرف ایک بار پھر ان پارٹی انتخابات کو رد کردیا۔ بلکہ پی ٹی آئی کو اپنے انتخابی نشان سے بھی محروم ہونا پڑا اور اس کے امیدواروں نے آزاد حیثیت میں جنرل الیکشن لڑا۔
اس سے ذرا پیچھے چلے جائیں تو یہ وکلا ہی تھے جنہوں نے عمران خان کی اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کراکے انہیں مصائب میں ڈال دیا تھا۔ بعد میں یہ وکلا ایک دوسرے پر ملبہ ڈالتے رہے۔ اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل شیراز رانجھا نے کہا تھا ’’پارٹی چیئرمین کو اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی درخواست نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اٹک جیل میں وکلاکی ملاقات بہت آسان تھی۔ شیر افضل مروت نے حتمی مشاورت کیے بغیر ہائی کورٹ اور خصوصی عدالت میں درخواست دائرکردی۔اڈیالہ جیل میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی ہیں۔ پھر یہ کہ ا ٹک جیل میں بانی پی ٹی آئی سے آمنے سامنے بات ہوتی تھی۔‘‘
قانونی بے وقوفیوں کا یہ سلسلہ خاصا طویل ہے۔ الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد ایک غیر معروف وکیل رائے محمد علی نے لاہور کے حلقے سے عمران خان کے کاغذات نامزدگی میں تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کے طور پر جن لوگوں کے نام لکھوائے، ان کا تعلق متعلقہ انتخابی حلقے سے نہیں تھا۔
قانون کے ادنیٰ سے طالب علم کو بھی معلوم ہے کہ تجویز اور تائید کنندہ کا تعلق متعلقہ حلقے سے ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر الیکشن کمشن نے عمران خان کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیئے تھے۔ یہ قانونی بھنڈ پی ٹی آئی کے وکلا نے ماری تھی لیکن حسب عادت اس کا ملبہ یہ کہہ کر الیکشن کمیشن پر ڈال دیا گیا کہ وہ جانبدار ہے۔ اگرچہ سزایافتہ ہونے کے سبب بانی پی ٹی آئی ویسے بھی الیکشن میں حصہ لینے کے اہل نہیں تھے۔ تاہم ان کے کاغذات نامزدگی اس امید پر جمع کرائے گئے تھے کہ شاید انہیں عدالت سے ریلیف مل جائے۔
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے وکلا کی جانب سے استغاثہ کے گواہان پر جرح نہ کرنے کو بھی ایک فاش قانونی غلطی قرار دیا جاتا ہے۔ اس رویہ پر احتساب عدالت نے عمران خان کا حق دفاع ختم کردیا تھا۔ واضح رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو چودہ، چودہ سال قید کی سزا اور مجموعی طور پر ایک ارب ستاون کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔
پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے عمران خان کو کرپشن، سانحہ نو مئی، غیر شرعی نکاح اور سائفر سمیت ڈیڑھ سوکے قریب مقدمات کا سامنا رہا۔ یہ تمام کیس جس طرح ان کے وکلا نے لڑے اور لڑرہے ہیں، اس سے ان کی قانونی سوجھ بوجھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں۔ قومی اسمبلی سے اجتماعی استفعے، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومتوں کو تحلیل کرنے کے معاملے پر بھی عمران خان نے اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کی تھی۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ فیصلے بھی غلط تھے۔
اس سارے معاملے پر ماضی میں عمران خان کو قانونی مشورے دینے والے ایک سابق ساتھی کا کہنا ہے ’’عدالتوں میں عمران خان کا دفاع کرنے والے وکلا کی اگر چہ ایک پوری فوج موجود ہے۔ لیکن ان میں سے اکثریت کا عمران خان سے کوئی جذباتی لگاؤ نہیں۔ ذاتی مفاد نے انہیں عمران خان کے قریب کیا۔ ان وکلا نے بانی پی ٹی آئی کے مقدمات لڑنے کے لئے بھاری فیسیں وصول کیں۔
بعد ازاں انہوں نے سیاسی میدان میں عمران خان کی مقبولیت کی لہر کو کیش کرایا۔ بعض ایسے وکلابھی پی ٹی آئی کی سپورٹ سے دوبارہ اسمبلیوں میں پہنچ گئے، جن کا سیاسی کیرئیر ختم ہو چکا تھا اور ان کی اپنی پارٹیاں انہیں مسترد کرچکی تھیں۔ کئی ایسے تھے جنہوں نے صرف دور سے ایوان کو دیکھا تھا۔ ان سب کی لاٹریاں لگ گئیں۔ ایسے میں ان کی توجہ عمران خان کے مقدمات لڑنے پر کیسے رہ سکتی ہے؟ اس وقت پی ٹی آئی کا کنٹرول عملاً ایسے وکلا کے پاس ہے، جن کا کچھ عرصے پہلے تک اس پارٹی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔‘‘