شایان احمد :
جاپانی تصور ہے کہ ایک صحت مند زندگی گزارنے کیلئے روزانہ 10 ہزار قدم چلنا ضروری ہے۔ لیکن برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کا کہنا ہے کہ عام شہری کیلئے روزانہ تین سے چار ہزار قدم چلنا ہی کافی ہے اور جو لوگ گھر کے کام کاج کرتے ہیں۔ وہ اس سے بھی کم چہل قدمی سے صحت مند رہ سکتے ہیں۔ لندن سکول آف اکنامکس (ایل ایس ای) کی نئی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ہفتے میں تین بار پانچ ہزار قدم چلنا زندگی میں تین سال کا اضافہ کر سکتا ہے۔
یہ خبر بہت سے لوگوں کیلئے خوش آئند ہو گی۔ کیونکہ اب ایسا لگتا ہے کہ آخر کار کچھ ایسا ہے جو ہم میں سے زیادہ تر لوگ بغیر کسی اضافی مشقت کے آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں ایک تہائی انسانوں کو غیر فعال سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ حکومتی ہدایات کے برعکس ہفتے میں 150 منٹ کی درمیانی سی ورزش، روزانہ تقریباً 20 منٹ کے برابر، یعنی 2 ہزار 400 قدم بھی نہیں لے پاتے۔
ایل ایس ای کی تحقیق میں پتا چلا کہ دو سال سے زیادہ باقاعدگی سے چہل قدمی جسمانی طور پر غیر فعال مردوں کی متوقع عمر میں ڈھائی سال اور غیر فعال خواتین کی عمر میں تین سال کا اضافہ کرتی ہے۔درحقیقت اس کے فائدے بڑی عمر کے لوگوں میں زیادہ واضح تھے۔ 65 برس یا اس سے زیادہ عمر کے افراد اگر ہفتے میں چند بار ساڑھے سات ہزار قدم چلیں تو موت کا خطرہ 72 فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔
محققین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ ٹائپ ٹو ذیابیطس والے 55 سالہ افراد اگر ہفتے میں تین بار صرف پانچ ہزار قدم چلنا شروع کر دیں تو ان کی موت کا خطرہ 40 فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔ ان نئے نتائج کو گزشتہ ہفتے برٹش جرنل آف اسپورٹس میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق میں شامل کیا گیا۔ جس کے مطابق روزانہ چار ہزار قدم چلنے سے قبل از وقت موت کا خطرہ 20 فیصد کم ہوتا ہے اور یہ کہ روزانہ 2 ہزار 200 سے زیادہ قدم چلنے سے ان کی صحت میں بہتری اور موت کا خطرہ کم ہوتا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ 10 ہزار قدم چلنے کا مشورہ روزانہ ہمیشہ سے ایک افسانہ رہا ہے؟ یہ نمبر یعنی 10 ہزار قدم روزانہ اصل میں 1964ء میں سامنے آیا جب ایک جاپانی مارکیٹنگ مہم نے ’مینپو کیے‘ نامی پیڈومیٹر کو فروغ دینے کیلیے اس آئیڈیا کا استعمال کیا۔ مینپو کیے کا جاپانی زبان میں مطلب ’10 ہزار قدم‘ ہے۔ تب سے یہ ایک عالمی معیار اور ایک عظیم ہدف بن گیا۔
لیکن یہ جسمانی سرگرمی کی واحد مقدار نہیں۔ جو فوائد فراہم کرے۔ کنگز کالج لندن میں ہیومن اینڈ اپلائیڈ فزیالوجی کے پروفیسر سٹیون ہیریج کہتے ہیں ’اگرچہ 10 ہزار قدم لوگوں کو ترغیب دے سکتے ہیں اور انہیں ہدف کیلئے مزید کام کرنے پر راغب کر سکتے ہیں۔ لیکن جب بات قدموں کی گنتی اور کسی بھی سرگرمی کی ہو تو یہ ایک دوا کی طرح ہے۔ یعنی دوا کا اثر اس کی مقدار کے تابع ہوتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں آپ جتنا زیادہ کام کریں گے۔ آپ کیلئے اتنا ہی بہتر ہو گا‘۔ درحقیقت اس جاپانی مہم کے بعد سے محققین گزشتہ چھ دہائیوں سے قدموں کی گنتی کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ کچھ کرنا کچھ نہ کرنے سے بہتر ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ 300 قدم 75 قدموں سے بہتر ہیں۔ آپ کو صحت کیلئے کسی کم از کم معیار کی ضرورت ہے۔
برٹش جرنل آف اسپورٹس میڈیسن کی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ روزانہ 2 ہزار 200 سے زیادہ ہر قدم سے دل کی بیماری اور جلد موت کا خطرہ کم ہوتا ہے اور سب سے کم خطرہ ان لوگوں میں ہوتا ہے جو روزانہ نو ہزار سے ساڑھے 10 ہزار کے درمیان قدم چلتے ہیں۔ دل کے دورے کا سب سے کم خطرہ ان لوگوں میں پایا گیا۔ جنہوں نے ایک دن میں تقریباً نو ہزار 700 قدم چلے۔
ہیریج کا کہنا ہے کہ ’ایکٹیویٹی سیٹ پوائنٹ‘ کا ایک تصور بھی ہے۔ جو آپ کو اپنی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے درکار سرگرمی کی مقدار ہے۔ ان کے بقول ’جیسے جیسے لوگ بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ اس کا امکان ہے کہ انہیں 10 ہزار قدموں کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اس سے کم ہی ان کیلیے کافی ہوں گے‘۔