امت رپورٹ :
شاہد آفریدی پچھلے چند دنوں سے پی ٹی آئی کی ’’گالی بریگیڈ‘‘ کے نشانے پر ہیں۔ قصہ اس اجمال کا یوں ہے کہ پہلے شاہد آفریدی کے ایک پرانے ویڈیو کلپ پر جس میں کوئی متنازع بات نہیں تھی اور پھر ان سے منسوب ایک جھوٹی پوسٹ پر بغیر تحقیق کے انصافی سوشل میڈیا چیخ پڑا۔ شخصیت پرستوں نے شاہد آفریدی کو یہ بھی یاد دلایا کہ عمران جیسے قد آور دیوتا سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ کم از کم اس حد تک تو انصافین کی بات درست ہے۔ شاہد آفریدی کبھی بھی عمران خان نہیں بن سکتا۔ یہ فرق بہت واضح ہے۔ اس پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ تاہم سر دست چیدہ چیدہ فرق ہی بیان کیا جارہا ہے۔
ایک باپ کا ایسا فرمانبردار کہ لوگ مثالیں دیں۔ دوسرے کا باپ اپنے پوتوں سے ملنے کے لیے ترستا تھا۔ ایک اپنی بیٹیوں کا مان ہے۔ دوسرا اپنی بیٹی کو ماننے سے انکاری۔ ایک ایسا کہ شہرت و کامیابیوں کا عروج پاکر بھی اس کا کوئی غیر اخلاقی اسکینڈل نہیں۔ دوسرے کی جوانی سے بڑھاپے تک کی رنگین زندگی سے شیطان بھی پناہ مانگے۔ ایک سگریٹ کو بھی ہاتھ نہ لگائے۔ دوسرے کی سابقہ بیوی اس کے موالی ہونے کی گواہی دے۔ ایک کے سارے کرکٹ کیریئر میں سٹے کا کوئی قصہ نہیں۔ دوسرا جوا کھیلنے کا فخریہ اعتراف کرے۔
ایک ایسا کہ مخالف تماشائی بھی جس کا احترام کریں۔ دوسرے کو ملازم لطیف بھی چپڑیں مارے۔ ایک اپنی بیوی کا وفادار۔ دوسرا ہر جگہ منہ مارے۔ ایک کا پروقار نکاح۔ دوسرا عدت میں شادی رچا لے۔ ایک کی بیٹیاں اس پر جان نچھاور کریں۔ دوسرے کی اولاد جیل میں سڑتے باپ کو ملنے سے بھی گریزاں۔ ایک کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ دوسرا اقتدار کی خاطر ملک کو آگ میں جھونکنے پر اتر آئے۔ ایک اپنی فاؤنڈیشن کے ذریعے ملک کے ان دور دراز علاقوں میں لوگوں کی مدد کرے جہاں روز مرہ کی بنیادی سہولیات نہیں۔ دوسرے نے شوکت خانم اسپتال کے عوامی چندے سے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی اور اس کا اعتراف خود عدالت میں کیا۔ ایک کی کبھی خفیہ یا اعلانیہ کوئی غیر اخلاقی گفتگو ریکارڈ پر نہیں۔ دوسرے کی عائلہ ملک کے ساتھ غلیظ آڈیو لیک۔
عمران خان کے ایک لیجنڈ آل راؤنڈر ہونے پر اگرچہ دو رائے نہیں۔ لیکن جب پی ٹی آئی کے گالی بریگیڈ نے شاہد آفریدی کی کرکٹ میں بھی کیڑے نکالنے شروع کیے تو جواب میں کئی دل جلوں نے ان کے دیوتا کی کرکٹ کو آڑے ہاتھوں لیا اور یہ ثابت کیا کہ اعداد و شمار کے لحاظ سے شاہد آفریدی کا کرکٹ ریکارڈ عمران خان سے بہتر ہے۔ مثلاً انیس سو بانوے کے جس ورلڈ کپ کی جیت کا سہرا عمران خان اپنے سر باندھتے ہیں۔ وہ ٹیم ورک کا نتیجہ تھا۔ انگلینڈ کے ساتھ فائنل میں عمران خان نے اگرچہ بہتّر رنز بنائے تھے۔ لیکن یہ لگ بھگ پینسٹھ کی ایوریج کے ساتھ اتنی سست رفتاری سے بنائے گئے کہ اگر بعد میں آنے والے انضمام الحق اور وسیم اکرم برق رفتاری سے رنز نہ بناتے تو پاکستان کبھی بھی انگلش ٹیم کو دو سو پچاس رنز کا وننگ ٹارگٹ نہیں دے سکتا تھا۔
دونوں نے بالترتیب ایک سو بیس اور ایک سو تراسی کے اسٹرائیک ریٹ سے بیالیس اور تینتیس رنز بنائے تھے۔ انگلینڈ کی باری میں عمران خان اپنے پورے دس اوورز کراتے تو شاید میچ پاکستان کے ہاتھ سے نکل جاتا۔ کیونکہ انگلش بیٹسمین عمران خان کی مسلسل دھنائی کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے چھ اوورز میں سب سے زیادہ رنز دیئے اور صرف ایک وکٹ لے سکے۔ یہ وسیم اکرم، مشتاق احمد اور عاقب جاوید تھے۔ جنہوں نے اپنی نپی تلی باؤلنگ سے گوروں کو ڈھیر کر لیا۔
یہی وجہ ہے کہ بائولنگ اور بیٹنگ دونوں میں شاندار کارکردگی پر فائنل کے مین آف دی میچ وسیم اکرم تھے۔ لیکن ورلڈ کپ کی جیت کا دم چھلا آج تک عمران خان نے اپنے ساتھ لگا رکھا ہے۔ اس کے برعکس شاہد آفریدی نے اپنی انفرادی کارکردگی سے پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دو ہزار نو جتایا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کپتان نہیں تھے۔
سری لنکا کے ساتھ کھیلے گئے فائنل میں شاہد آفریدی نے باؤلنگ کرتے ہوئے سب سے کم رنز دے کر ایک وکٹ لی اور پھر چالیس بالز پر چون رنز کی دھواں دھار اننگ کھیل کر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ پاکستان کے نام کرلیا تھا۔ اس سے قبل جنوبی افریقہ کے خلاف سیمی فائنل بھی پاکستان شاہد آفریدی کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے جیتا تھا۔ شاہد آفریدی نے محض سولہ رنز دے کر دو وکٹیں اور پھر چونتیس بالز پر اکیاون رنز بنائے تھے۔ سیمی فائنل اور فائنل دونوں کے مین آف دی میچ شاہد آفریدی تھے۔
اسی طرح عمران خان اور شاہد آفریدی کے مکمل کرکٹ کیریئر کا موازنہ بھی سوشل میڈیا پر زور و شور سے جاری ہے۔ خاص طور پر ون ڈے میچز، جس میں شاہد آفریدی کو برتری حاصل ہے۔ عمران خان نے ایک سو پچھتر ایک روزہ میچ کھیل کر تین ہزار سات سو نو۔ جبکہ شاہد آفریدی نے تین سو اٹھانوے میچ میں آٹھ ہزار چونسٹھ رنز بنائے۔ عمران خان نے صرف ایک سنچری اور انیس ففٹیز بنائیں۔ آفریدی نے چھ سنچریاں اور انتالیس ففٹیز بنائیں۔
عمران نے محض پینتالیس چھکے اور آفریدی نے تین سو اکیاون چھکے مارے۔ عمران خان نے ایک سو بیاسی اور آفریدی نے تین سو پچانوے وکٹیں حاصل کیں۔ بائولنگ میں عمران کی بہترین کارکردگی چودہ رنز دے کر چھ وکٹیں تھیں۔ آفریدی نے بارہ رنز کے عوض سات وکٹیں لیں۔ عمران خان نے کسی ایک میچ میں ایک بار پانچ وکٹیں لیں اور آفریدی نے یہ کارنامہ نو بار انجام دیا۔