عمران خان:
نیشنل بینک کے پنشن فنڈز میں بڑے پیمانے پر فراڈ کا انکشاف ہونے پر قومی بینک کے 22 افسران کو شامل تفتیش کرلیا گیا۔ ایف آئی اے کے تفتیشی ذرائع کے مطابق تحقیقات پر اثر انداز ہونے کے لئے خاتون افسر کے زیر استعمال اہم سرکاری ڈیٹا سے بھرا لیپ ٹاپ بھی منظر عام سے غائب کرنے کی کوشش کی گئی۔
موصول ہونے والی معلومات کے مطابق ایف آئی اے نے شعبہ پینشن کی انچارج کے ساتھ ہی ایکیومیلیٹیو فنڈز اور پینشن پر لون کی منظوریاں دینے والے شعبہ ایچ آر، شعبہ فنانس اور کمپنسیشن اینڈ بینیفٹ ڈپارٹمنٹس کے افسرا ن تک تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا۔
تحقیقات اس وقت شروع کی گئیں جب بعض پینشنزر کے نام پر جاری ہونے والے جعلی پے آرڈرز اور لون کی وارداتیں پکڑی گئیں۔ تحقیقات میں خاتون افسر کے 10سالہ میں ایکیومیلیٹیو فنڈز اور پینشن پر لون کی منظوریوں کے سات ہی ماہانہ پینشن میں کروڑوں روپے کے فراڈز پر بھی تفتیش شروع کردی گئی ہے تاکہ گھوسٹ ملازمین کے ناموں پر طویل عرصہ سے نکلنے والی پینشن کی رقم اور ان کے بینفشریز کا سراغ لگایا جاسکے۔ ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ خاتون افسر کی جانب سے اپنے بعض اعلیٰ افسران کو بھی ٹرانزیکشنز کی گئیں۔
ذرائع کے بقول ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کراچی میں قومی بینک کے شعبہ پینشن میں فراڈ کے معاملات سامنے آنے کے بعد انکوائری درج کرکے تحقیقات شروع کی گئیں۔ ایف آئی اے میں جن افسران 22 افسران کو شامل تفتیش کیا گیا ان میں ونگ ہیڈ رفعت نورین، منیجر محمد اصغر، اسسٹنٹ منیجر افروز تبسم، اسسٹنٹ منیجر ارشد اقبال خان، منیجر انویسمنٹ کنول منور، اسسٹنٹ منیجر فیصل صمد، ایچ آر آفیسر ارشد عزیز، سیکشن ہیڈ پی ایف فیصل قدیر شاہ، ڈپارٹمنٹ ہیڈ راشد علی خان، ایچ آر آفیسر مزمل شاہ، نعمان قاضی فنانس ڈپارٹمنٹ، مسعود رضا فنانس ڈپارٹمنٹ، سید محمد فرخ شاہد فنانس ڈپارٹمنٹ، ایوب خان فنانس ڈپارٹمنٹ، شاہ محمد احسان فنانس ڈپارٹمنٹ، بینا کنول فنانس ڈپارٹمنٹ، مصطفی خرم فنانس ڈپارٹمنٹ، اظہر اسلام فنانس ڈپارٹمنٹ، سلمان طلعت ونگ ہیڈ ای بی ڈبلیو، خورشید خان ڈویژنل ہیڈ ایچ آر ایس ڈی، عباس علی حاتم ڈویژنل ہیڈ، سید عمران گیلانی ونگ ہیڈ ای بی ڈبلیو، رضی الدین ڈویژنل ہیڈ ایس اینڈ بی ڈی شامل ہیں۔
اس سے قبل بینک میں محکمہ جاتی سطح پر ہونے والی انکوائری میں انچارج سیدہ رفعت نورین کے کمرے سے اہم ریکارڈ اور لیپ ٹاپ خود بینک حکام نے قبضے میں لے لیا تھا۔ تحقیقات ایف آئی اے کے تفتیشی افسر رانا ثنا اللہ کو سپرد کی گئی ہیں جنہوں نے نیشنل بینک کے شعبہ ایچ آر کے سربراہ اور اسکینڈل کی تحقیقات کے لئے اداروں کے درمیان تعاون کے لئے تعینات کردہ فوکل پرسن کے توسط سے اہم ریکارڈ طلب کرلیا۔ تاہم متعلقہ افسران مکمل ریکارڈ فراہم کرنے سے مسلسل گریزاں ہیں۔
دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ دنوں قومی بینک کے شعبہ کمپنسیشن اینڈ بینیفٹ ایچ آر کے سربراہ سینئر وائس پریزیڈنٹ رضی الدین کی جانب سے ایف آئی اے حکام کو بینک میں ملازمین کی پیشن میں ہونے والے فراڈ پر تحقیقات کے لئے تحریری درخواست دی گئی۔ جس پر کمرشل بینکنگ سرکل کراچی میں باقاعدہ انکوائری درج کرلی گئی۔ دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے تحقیقات پر تیزی سے کام کیا جا رہا ہے اور اس ضمن میں قومی بینک کے حکام کو اب متعدد تفصیلی مراسلے جاری کئے جاچکے۔
ایک مراسلے میں قومی بینک کے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا گیا کہ اس معاملے میں تحقیقات کو جلد منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے اداروں کے درمیان تعاون کے لئے فوکل پر تعینات کیا گیا۔ جس کے توسط سے ملازمین کو پینشن کے اجرا کے قواعد، بینک کے شعبہ پینشن کے افسران کے موبائل نمبرز، شناختی کارڈ ڈیٹا اور گھروں کے پتے طلب کئے گئے۔ اس کے ساتھ ہی شعبہ پینشن کی افسر سیدہ رفعت نورین کے مکمل کوائف اور ان کی تعیناتی اور تبادلے کی تفصیلات کے ساتھ ہی 2010ء کے بعد بینک میں تعیناتیوں اور تبادلوں کے قواعد و ضوابط بھی مانگے گئے۔
اس کے علاوہ سیدہ رفعت نورین کے دور میں پینشن کی رقم مختص اور جاری کرنے والے افسران کے کوائف، پے آرڈر جاری اور منظور کرنے والوں اور مین برانچ میں پینشنرز کے نام پے آر ڈر جمع کروانے والوں کا ڈیٹا طلب کیا گیا۔ جبکہ سیدہ رفعت نورین کے دور میں پینشن کی فائلوں کو تحویل میں رکھنے والے افسران، لون اور لاکرز کی سہولت کے لئے فارمز بھروانے والے افسران کے کوائف بھی مانگے گئے۔
اس مراسلے میں خاتون افسر کے کمرے سے قبضے میں لیے گئے ریکارڈ کو بھی طلب کیا گیا۔ تاہم دوسرے مراسلے میں ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کی جانب سے لکھا گیا کہ بینک کے متعلقہ حکام نے انکوائری سے جان چھڑانے کے لئے ادھورا ریکارڈ رائیڈر کے ذریعے ایف آئی اے بھجوا دیا جو ایک انتہائی غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ جبکہ انکوائری میں اس فراڈ میں سنگین غیر قانونی حقائق سامنے آرہے ہیں۔
مراسلے میں بینک حکام کو بتایا گیا کہ مذکورہ ڈیٹا اور پے آرڈرز کا اصل مصدقہ ریکارڈ فوکل پرسن کے ذریعے ایف آئی اے کو دیا جائے۔ جبکہ سید رفعت نورین جو کہ حیرت انگیز طور پر 10برس تک شعبہ پینشن میں مسلسل تعینات رہیں، اس کے حوالے سے بھی متعلقہ ریکارڈ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی خاتو ن افسر کے کمرے سے اہم ڈیٹا سے بھرا لیپ ٹاپ ایف آئی اے کو دیا جائے جس کے ریکارڈ میں رد و بدل کا اندیشہ موجو د ہے اور اس سے تفتیش متاثر ہوسکتی ہے۔