محمد قاسم:
افغان طالبان کے امیر مولوی ہبت اللہ اخونزادہ نے سرکاری ملازمین کی پنشن بند کردی۔ جبکہ پنشنرز نے فیصلے کو خلاف شریعت قرار دیکر علما سے مداخلت کی اپیل کر دی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق افغان وزارتی کمیشن نے ایک ماہ قبل ایک لاکھ باون ہزار ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن کے حوالے سے سفارشات تیار کی تھیں۔ جسے فائنل منظوری کیلئے طالبان کے امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کے پاس بھجوایا گیا۔ تاہم طالبان سربراہ نے ایک مختصر مراسلے میں تمام سرکاری ملازمین کی پنشن ختم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وزارتی کمیشن کی سفارشات مسترد کردیں۔
ذرائع کے مطابق تقریباً ایک لاکھ 52 ہزار سرکاری پنشنرز کا تعلق ماضی کی حکومتوں سے ہے۔ ان میں فوجی، اساتذہ، پولیس، کارپوریشن اور دیگر محکموں کے افراد شامل ہیں۔ جبکہ گزشتہ تمام ادوار بشمول طالبان کے سابق دور میں انہیں یہ پنشن ملتی بھی رہی۔ یاد رہے کہ افغانستان میں ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 64 سال ہے۔ اور قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کیلئے 40 برس سرکاری نوکری کرنے کی شرط لازم ہے۔
کابل میں ایک ریٹائرڈ پروفیسر محمد ربی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان کا گزارا پنشن پر تھا اور گزشتہ 4 ماہ سے انہیں پنشن نہیں ملی۔ جس کے باعث انہوں نے گھر کا سامان فروخت کرکے گزارا کیا۔ اب اگر طالبان سربراہ کی ہدایت پر عملدرآمد کیا گیا تو وہ اپنے پاس موجود سونا فروخت کرکے کسی اور ملک جانے کا بندوبست کریں گے۔
پروفیسر محمد ربی کے مطابق طالبان حکومت کے اقدام سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ خاندان کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جاری ایک بیان میں کہا کہ پنشن کے مسئلے پر جو ممکن ہوا کریں گے۔ کوشش ہوگی اس مسئلے کو جلد از جلد حل کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی کی حکومت نے اپنے لوگوں کیلئے جعلی پنشنرز داخل کرائے۔ جس پر یہ اقدام اٹھایا گیا۔ کیونکہ ان پنشنرز میں اکثریت سابق فوجیوں کی ہے جو اس وقت ملک سے فرار ہیں اور ان کے خاندان ان کی پنشن وصول کر رہے ہیں۔ دنیا کے کون سے ملک میں ہے کہ جو فوجی، حکومت وقت کے خلاف بغاوت میں ملوث ہو اور اسے پنشن دی جائے۔
کابل میں نجیب دور کے ایک کرنل ریٹائرڈ جواد کریمی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ذبیح اللہ مجاہد کے دعوے میں کوئی حقیقت نہیں۔ ملا عمر کے دور حکومت تک کے بیس برسوں میں کسی کی پنشن نہیں روکی گئی اور نہ ہی ملا عمر نے ان کی پنشن کو روکا۔ لیکن اب ان کی پنشن کو بند کردیا گیا۔
افغان وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان کے اہم رہنمائوں نے ملا ہیبت اللہ سے اس امر پر نظر ثانی کی درخواست کی ہے اور اس کا کوئی مثبت حل نکل آنے کی امید ہے۔ ان کے بقول وزارت داخلہ کو صرف چھان بین کا کہا گیا ہے اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے اس سے قبل ریٹائرڈ پولیس اہلکاروں کو پنشن کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
دوسری جانب وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق ملا ہیبت اللہ کی ہدایات کے بعد تمام محکموں کی پنشن روک دیا گیا ہے اور ان کے حکم نامے تک کسی کو کوئی پنشن نہیں ملے گی۔ دوسری جانب مختلف محکموں نے وزارت خزانہ کو درخواستیں دی ہیں کہ اس حوالے سے طالبان کے سرکردہ علما اور وزرا مولوی ہیبت اللہ کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کریں۔
ادھر اقوام متحدہ نے طالبان سربراہ کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے طالبان کو مزید امداد بند کرنے پر غور شروع کردیا ہے اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے بھی اپیل کی ہے کہ طالبان حکومت کو اس وقت تک ہر قسم کی امداد بند کردی جائے جب تک پنشنرز کو پنشن نہیں ملتی۔ جبکہ امریکہ سے بھی درخواست کی ہے کہ افغان حکومت کے منجمد 9 ارب ڈالرز میں سے ایک لاکھ 12 ہزار افراد کو پنشن کی ادائیگی کیلیے طریقہ بناکر پنشنرز کو ادائیگی کریں۔ کیونکہ ان پنشنرز کو ماضی میں اقوام متحدہ ادائیگی کرچکی ہے اور طالبان اپنے وعدے سے مکر رہے ہیں۔ افغان اپوزیشن پہلے ہی اس امداد کو بند کرنے کی اپیل کر چکی ہے۔ افغان اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکی امداد سے طالبان جنگجوئوں کو تنخواہیں دی جارہی ہیں۔