عمران خان:
سائبر لٹیرے ملک میں رہنے والے شہریوں کے بعد اوورسیز پاکستانیوں کا بھی شکار کرنے لگے۔ حالیہ واردات میں بیرون ملک موجود خاتون کی شناخت پر سم کھلواکر ملزمان اس کے بینک اکاؤنٹ سے کروڑوں لے اڑے۔
ایسے ہی ایک دوسری متاثرہ خاتون کے کیس میں کراچی کے نجی بینک کے عملے کی سہولت کاری شامل رہی۔ کیونکہ ایک اکائونٹ سے رقوم دیگر اکائونٹس میں ٹرانسفر کرنے کیلئے خاتون کے نام کے چیک جعلی دستخطوں کے ساتھ استعمال کیے گئے۔ اس نوعیت کی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں اب تک کئی شکایات موصول ہوچکی ہیں۔ تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ نجی بینکوں، ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے فقدان کو یہ آن لائن فراڈیئے مسلسل اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق حالیہ دنوں میں ایف آئی اے حکام کو بیرون ملک مقیم ایک پاکستانی خاتون کی جانب سے تحریری درخواست دی گئی، کہ وہ گزشتہ کئی برس سے ملک سے باہر رہائش پذیر ہے اور اس دوران اس کے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں قائم ایک نجی بینک کی برانچ میں موجود بینک اکائونٹ سے کروڑوں روپے نکال لیے گئے ۔اس بات کا جب مذکورہ خاتون کو علم ہوا تو اس نے پہلے بینک انتظامیہ سے معلومات حاصل کیں۔ جس میں انہیں بتایا گیا کہ بینک ریکارڈ کے مطابق اس کے ساتھ کسی قسم کا کوئی فراڈ نہیں ہوا۔ بلکہ خاتون نے خود اپنے بینک اکائونٹ سے چیک کے ذریعے ٹرانزیکشنز کرکے کروڑوں روپے کی رقوم دیگر بینک اکائونٹس میں منتقل کروائیں۔
بینک ڈیٹا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کیلئے خاتون کے شناختی کوائف پر ایک نجی موبائل ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی سے سم ایکٹو کروائی گئی۔ جس سے چیک کلیئرنس سے پہلے بینک کو تصدیق بھی کی گئی۔ بینک سے ابتدائی معلومات حاصل کیے جانے کے بعد مذکورہ خاتون کی تحریری درخواست پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں اس پر انکوائری شروع کی گئی۔ ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ جس دوران خاتون کے نام پر نجی کمپنی یو فون کی سم پاکستان میں ایکٹو کروائی گئی۔ اس وقت خاتون پاکستان میں موجود ہی نہیں تھی۔ اس کے باجود آن لائن فراڈیوں نے خاتون کے شناختی ڈیٹا کے ساتھ اس کے فنگر پرنٹس کا ریکارڈ بھی استعمال کیا۔ کیونکہ کسی بھی شخص کیلئے نئی سم نکلوانے کیلئے بائیو میٹرک تصدیق کروانی لازمی ہوتی ہے۔ اس معاملے میں مزید ایسے شواہد سامنے آئے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بینک عملے کی ملی بھگت شامل ہے۔ کیونکہ خاتون کے جعلی دستخطوں کے ساتھ چیک استعمال کیے گئے۔
اسی نوعیت کے ایک دوسرے کیس کی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سائبر فراڈیوں نے ایک خاتون کے نام سے نہ صرف موبائل سم کھلوائی۔ بلکہ سم نمبر اور خاتون کا شناختی ڈیٹا استعمال کرکے ایک نیا بینک اکائونٹ بھی کھلوا لیا۔ اس معاملے میں حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اس وقت اسٹیٹ بینک کی جانب سے بے نامی اور جعلی اکائونٹس کے خاتمے اور مشکوک ترسیل زر کو روکنے کیلیے نجی بینکوں کے قوانین انتہائی سخت بنائے گئے ہیں۔
ان قوانین کے تحت کوئی بھی نجی بینک کسی بھی شہری کی مکمل اور فزیکل تصدیق کے بغیر بینک اکائونٹ اوپن نہیں کرسکتا۔ اس کیلیے شہریوں کو اپنے اصل شناختی کارڈز، اپنی تنخواہ اور آمدنی کے مصدقہ ریکارڈ کے ساتھ بینکوں کی برانچز میں پیش ہونا پڑتا ہے۔ بعض اوقات عام شہریوں کو نیا بینک اکائونٹ کھلوانے میں اتنا تنگ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ پریشان ہوکر اکائونٹ کھلوانے سے ہی باز رہتے ہیں۔ تاہم اس کیس میں ملزمان نے خاتون کے ملک سے باہر ہونے کے باجود اس کے ڈیٹا کو استعمال کرکے اس کا بینک اکائونٹ کھلوانے اور اسے استعمال کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ مزید یہ کہ جس بینک میں خاتون کا پہلا اکائونٹ تھا۔ اسی میں دوسرا اکائونٹ کھلوا کر پہلے اکائونٹ سے رقم دوسرے اکائونٹ میں منتقل کروائی گئی اور بعدازاں کروڑوں روپے دیگر اکائونٹس میں منتقل کرکے کیش کروالئے گئے۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول اس نوعیت کے کیسز سے معلوم ہوتا ہے کہ سائبر کرائم میں ملوث ملزمان کو ابھی تک شہریوں کا شناختی ڈیٹا اور فنگر پرنٹس ریکارڈ مختلف ذرائع سے موصول ہو رہا ہے۔ جس سے سلیکون کے جعلی انگوٹھے اور انگلیاں بناکر ایک مخصوص انسانی جسم کی حرارت کے ساتھ انہیں بائیو میٹرک مشین پر استعمال کرکے سمیں کھلوائی جا رہی ہیں اور ان سموں کو مالیاتی فراڈز اور بلیک میلنگ کی وارداتوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے بقول عام طور پر اس نوعیت کا ڈیٹا ان سائبر ملزمان کو الیکشن کمیشن کی ووٹرز لسٹوں، نادرا کے لیک ڈیٹا کے علاوہ بینکوں اور موبائل کمپنیوں کی لیکیج سے ملتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی اور گیس کی تقسیم کار کمپنیوں اور مائیکرو بینکنگ کی ایپس مثلاً ایزی پیسہ، جیز کیش وغیرہ استعمال کرنے والوں کا شناختی ڈیٹا اور موبائل نمبرز کے لیک ہونے کا بھی امکان ہے۔
تاہم اس وقت ملزمان کو ایسے شہریوں کا مخصوص ڈیٹا بھی مختلف ذرائع سے مل رہا ہے۔ جن کے اکائونٹس میں بھاری رقوم موجود ہیں اور یہ افراد شہر یا ملک سے کافی عرصہ سے باہر ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نجی بینکوں یا مرکزی بینک کے حساس مالیاتی اور کھاتوں کے ڈیٹا سے منسلک عناصر یہ معلومات لیک کرکے بھاری رقوم بٹور رہے ہیں۔ اس سے اس اندیشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ شہریوں کے بینک اکائونٹس کا بڑا ڈیٹا غیر محفوظ ہوچکا ہے اور وہ جرائم پیشہ ملزمان تک پہنچ رہا ہے۔