اقبال اعوان :
محکمہ اوقاف سندھ کی نا اہلی کے باعث منگھوپیر درگاہ کے مگرمچھ بھوک سے بے حال ہونے لگے۔ ایک جانب سرکاری گوشت کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی، جبکہ دوسری جانب اسٹریٹ کرائم بڑھنے کے باعث درگاہ پر آنے والے زائرین کی تعداد انتہائی کم ہو چکی ہے جو گوشت یا دیگر کھانے کی اشیا مگرمچھوں کو ڈالتے تھے۔
گدی نشین سجاد بلوچ کا کہنا ہے کہ ایک پرندہ بھی ان کے تالاب پر آجائے تو مگرمچھ اس کے پیچھے بھاگتے ہیں یہ بے زبان کسی سے فریاد نہیں کر سکتے۔ بار بار سرکاری اداروں کو خطوط لکھے۔ تاہم کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔ جبکہ اس حوالے سے محکمہ اوقاف کے مزارات انچارج مفتی منیر احمد نے بتایا کہ واقعی مگرمچھوں کے لیے گوشت کا بندوبست نہیں ہورہا ہے اور کاغذی کارروائی ہوتی رہتی ہے۔
واضح رہے کہ کراچی کے ضلع ویسٹ میں واقع منگھو پیر مزار کی دھوم 10 سال پہلے تک ملک بھر میں تھی۔ گرم چشمے، مگرمچھوں اور شیدی میلہ کے ایونٹ کے باعث کراچی سمیت ملک بھر سے لوگ مزار پر آتے تھے۔ سندھ کے محکمہ اوقاف نے بھی اس دوران مزار کو سونے کی چڑیا سمجھا اور چندہ بکس بڑھا دیے۔ دکانوں، چپل والے، پارکنگ اور دیگر سہولتوں کے خوب ٹھیکے دیے تھے۔
چند سال قبل گرم چشمے پانی چور اور زمینوں پر قبضے والوں کی کارروائی کے باعث گرم چشمے ختم ہو گئے اور مزار کے احاطے میں تالاب کے مگرمچھوں تک معاملہ رہ گیا۔ شہری کٹی پہاڑی اور بنارس سمیت جن راستوں پر جاتے ہیں ان راستوں پر لوٹ مار کا سلسلہ بہت زیادہ ہے۔ مزار تک جانے والی سڑک گڑھوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ پہلے روزانہ سیکڑوں گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، بسیں، ویگنیں آتی تھیں اب شہر سے آنے والوں کی تعداد بمشکل درجنوں میں گنی جا سکے گی۔ اطراف کے گوٹھوں کے غریب لوگ شام کو چکر لگاتے ہیں کہ شاید لنگر یا افطار کا بندوبست ہو، تاہم ایسا نہیں ہورہا ہے۔ اس مزار پر گداگروں کی تعداد بھی کم ہے کہ بھیک دینے والے شہری نہیں آتے ہیں مزار پر سارا دن سناٹا چھایا رہتا ہے۔
درگاہ کے گدی نشین سجاد بلوچ کا کہنا ہے کہ مگرمچھوں کے حوالے سے محکمہ اوقاف عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ بار بار خطوط لکھ رہے ہیں کہ تالاب کی 10 سال سے صفائی نہیں کرائی گئی۔ اطراف کی حفاظتی دیواریں مخدوش ہو چکی ہیں اگر کوئی دیوار کے ساتھ کھڑا ہوا تو گرے گی اور جانی حادثہ رونما ہوگا کہ مگرمچھ فاقوں سے خونخوار ہو چکے ہیں ان کے لیے روزانہ 2 صحت مند بڑی گائیں درکار ہیں۔ اب مزار پر جرائم بڑھنے پر زائرین کی تعداد کم آرہی ہے اور سرکاری پیٹیوں میں چندہ کم جارہا ہے اور اس کی سزا بے زبان مگرمچھوں کو نہ دی جائے۔
اگر ادارہ نہیں سنبھال سکتا تو محکمہ وائلڈ لائف کے حوالے کر دے۔ مزار پر سحری و افطار کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے کہ فلاحی ادارے، زائرین، مخیر حضرات لنگر یا افطار نہیں کراتے ہیں۔ دوسری جانب پھول، چادروں، تبرکات والے، درگاہوں کی خصوصی اشیا والے، ہوٹل والے، پارکنگ والے، جوتوں والے سب پریشان بیٹھے ہیں۔ بنارس اور کٹی پہاڑی سے مزار تک جانے والے راستوں پر لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ ماربل فیکٹریوں کے مالکان ادھر نہیں آتے ہیں جبکہ ملازمین آئے روز لوٹ مار کا شکار ہوتے ہیں۔
سندھ محکمہ اوقاف کے مزارات کے انچارج مفتی منیر احمد طارق کا کہنا ہے کہ کراچی میں ہزار سے زائد بڑے چھوٹے مزارات ہیں 33 مزار محکمہ اوقاف سندھ کے زیرانتظام ہیں۔ اب مزار پر اس ادارے کا عملہ ہوتا ہے جن کو چندہ بکس سے ملنے والی رقم سے تنخواہیں دی جاتی ہیں اور مزار کی بجلی کا بل ادا کرتے ہیں۔ اب چندہ کم ہو چکا ہے منگھو پیر درگاہ پر چندہ 10 قبل جتنا تھا اب اس کا 10/15 فیصد رہ گیا ہے۔
مزار کے ذمہ دار خطوط لکھتے ہیں اور مگرمچھوں کو گوشت فراہم کیا جائے۔ یہ درخواستیں کئی سال سے دے رہے ہیں تاہم ادارے کے اعلیٰ افسران جواب نہیں دیتے ہیں۔ مزار پر سرکاری سطح پر کوئی افطاری یا سحری کا سلسلہ رمضان میں نہیں رکھا گیا تھا اور نہ مگرمچھوں کو گوشت دیا گیا ہے۔ وہ محکمے کے صوبائی وزیر، سیکریٹری اور چیف ایڈمنسٹریٹر کو آگاہ کر چکے ہیں۔