مینار پاکستان پر 5 اکتوبر کو احتجاج کے لیے این او سی اپلائی کر دیا ہے، فائل فوٹو
مینار پاکستان پر 5 اکتوبر کو احتجاج کے لیے این او سی اپلائی کر دیا ہے، فائل فوٹو

علیمہ خان نے انصاف ٹائیگر فورس کی کمان بھی سنبھال لی

امت رپورٹ :

تحریک انصاف عید کے بعد احتجاج کی منصوبہ بندی کررہی ہے تاکہ ممکنہ حکومتی کارروائی کو روکا جاسکے ، جو اس کے اعصاب پر طاری ہے۔ تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ اس احتجاج کے لیے ڈنڈا بردار ’’ٹائیگر فورس‘‘ کو بھی تیار کیا جارہا ہے۔ اس سے پی ٹی آئی کی نیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس موڈ میں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’ٹائیگر فورس‘‘ کی ڈیوٹیاں علیمہ خان کرا رہی ہیں۔

یوں انہوں نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر کے بعد ’’انصاف ٹائیگر فورس‘‘ کی کمان بھی سنبھال لی ہے۔ ویسے تو تحریک انصاف نے دو ہزار گیارہ میں اپنی اٹھان کے چند برس بعد ہی نام نہاد ’’ٹائیگر فورس‘‘ بنا لی تھی۔ تاہم اس کا باقاعدہ اعلان عمران خان نے بطور وزیر اعظم کورونا کے دوران دو ہزار بیس میں کیا تھا۔ تاہم اس کا مقصد بظاہر لوگوں کے گھروں تک راشن پہنچانا بتایا گیا تھا۔ لیکن اسی ’’ٹائیگر فورس‘‘ نے آگے چل کر سیاسی مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کے لیے پارٹی پرچم کے رنگ والے ڈنڈے بھی تیار کئے۔

دو ہزار بائیس میں جب عمران خان کو یقین ہوگیا کہ اب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد رکنے والی نہیں تو اپوزیشن پارٹیوں پر دباؤ ڈالنے کے لئے جو جلسہ کیا گیا، اس کی حفاظت کے نام پر ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس کو لایا گیا تھا۔ ان ڈنڈوں پر کیل بھی لگائے گئے تھے۔ اب اسی ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس کو عید بعد عمران خان کی رہائی سے متعلق جلسے جلوسوں اور احتجاج کے لئے استعمال کرنے کی تیاری کی جارہی ہے، جس کی کمان علیمہ خان نے سنبھالی ہے۔

اسلام آباد میں موجود پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق علیمہ خان کی پی ٹی آئی سیکرٹریٹ میں آمد کا سلسلہ جاری ہے، جہاں وہ دو تین گھنٹے گزارتی ہیں اور مختلف احکامات جاری کرتی ہیں۔ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ عمران خان نے علیمہ خان کو پارٹی کے معاملات سے الگ کر دیا ہے۔ بلکہ علیمہ خان نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے ’’ٹائیگر فورس‘‘ کو دوبارہ متحرک کرنے کا کام شروع کر رکھا ہے۔ اس کے لیے خاص طور پر خیبرپختونخوا کے نوجوان کارکنان کو جمع کیا جارہا ہے کہ وہ عید بعد ہونے والے احتجاجی سلسلے میں اپنا سرگرم رول ادا کرسکیں۔ مرکزی دفتر سے اس سلسلے میں احکامات جاری کیے جارہے ہیں۔

ذرائع کے بقول کارکنان کو جڑواں شہروں اسلام آباد و راولپنڈی اور قرب وجوار کے اضلاع میں لانے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ جب کہ خیبر پختونخوا میں جلسے جلوسوں کے لئے بھی علیمہ خان احکامات جاری کر رہی ہیں۔ عید کے تیسرے چوتھے روز کوہاٹ میں اسی نوعیت کے ایک احتجاجی جلسے کے لئے شہریار آفریدی سے علیمہ خان رابطے میں ہیں۔ اس جلسے میں علیمہ خان اپنی دیگر بہنوں کے ہمراہ شرکت بھی کریں گی۔

واقفان حال کے بقول عید پر رہائی نہ ملنے کے باعث اڈیالہ جیل میں قید خبطی انقلابی سخت ڈپریشن میں ہے۔ اس کے وکلا نے یقین دلایا تھا کہ عید سے پہلے وہ ضمانت پر باہر ہوگا جبکہ علیمہ خان نے بھی دھڑلے سے یہی پیش گوئی کی تھی۔ خاص طور پر توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کے بعد عمران خان کی ضمانت پر رہائی سے متعلق پی ٹی آئی کی امید بڑھ گئی تھی۔ درمیان میں محض سائفر کیس کی سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ رکاوٹ تھا۔ عمران خان اور پارٹی قیادت کو یقین تھا کہ اس کیس میں بھی سزا معطل ہو جائے گی۔ یوں اڈیالہ کا قیدی عید سے پہلے زمان پارک یابنی گالہ میں ہوگا۔ لیکن اس امید پر پانی پھر چکا ہے۔

کیس کی سماعت عید کے بعد سولہ اپریل کو مقرر کی گئی ہے۔ اس میں قصور عمران خان کی قانونی ٹیم کا بتایا جارہا ہے جو گواہوں پر اپنی جرح وقت پر مکمل نہ کرسکے۔ اس طوالت کے باعث سائفر کیس کی سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ جو عید سے قبل متوقع تھا وہ لٹک گیا۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے خود ساختہ چیئرمین بیرسٹر گوہر نے اپنی پرانی پیش گوئی سے دستبردار ہوتے ہوئے اپریل میں عمران خان کی رہائی کی نوید سنائی ہے۔ لیکن اب عمران خان وکلا ٹیم کی باتوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ ’’انقلابی‘‘ کے خیال میں سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے ڈالے جانے والے دباؤ سے ہی اس کی جلد رہائی ممکن ہوسکتی ہے۔ اس کے نزدیک یہ دباؤ ریاست اورعدالت، دونوں پر اثر انداز ہوگا۔

اسی سوچ کے ساتھ عید کے بعد جلسے جلوسوں اور احتجاج کا جو پلان ترتیب دیا گیا ہے اس کا یک نکاتی ایجنڈا ’’عمران خان کو رہا کرو‘‘ کا مطالبہ ہوگا۔ الیکشن میں دھاندلی اور جمہوریت کی مضبوطی جیسے نعرے دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر ہونے والے ا حتجاج کے لیے ہوں گے۔ یعنی عید کے بعد دو طرح کے احتجاج کا پلان بنایا جارہا ہے۔ دیکھنا ہے کہ اس میں پی ٹی آئی کو کتنی کامیابی ملتی ہے کیونکہ حکومت کا موچڑا بھی تیار ہے۔