محمد علی:
آسٹریلیا کے ساحلی شہر سڈنی کے مصروف شاپنگ سینٹر میں خون کی ہولی کھیلنے والے مقامی دہشت گرد کو ذہنی مریض قرار دے دیا گیا۔
آسٹریلوی میڈیا کے مطابق 40 سالہ جوئل کوچی شریزوفرینیا نامی ذہنی بیماری میں مبتلا تھا اور دوائیاں کھاتا تھا۔ گزشتہ چند برس سے اسلحے میں اس کی دلچسپی بڑھنے لگی تھی۔ اس نے کئی بار ہینڈ گن وغیرہ حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔
دہشت گرد کے والد اینڈریو کوچی نے اپنے بیٹے کو مظلوم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وہ بہت تکلیف میں تھا۔ اسے مدد کی ضرورت تھی۔ میں بہت دکھی ہوں۔ میں ایک شیطان سے محبت کرتا ہوں اور اب اپنے بیٹے کو واپس نہیں لا سکتا۔ وہ سماجی طور پر بالکل تنہا تھا۔ اس کی کوئی گرل فرینڈ نہیں تھی۔ اس لیے خواتین کو مارا‘۔
واضح رہے کہ ہفتے کو ہونے والے حملے میں جوئل کوچی نے 5 خواتین سمیت 6 افراد کو چھریوں کے وار کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ جبکہ اس نے شاپنگ مال میں مجموعی طور پر 12 افراد کو زخمی کیا۔ اس کے ساتھ 2019ء میں معاشقہ لڑانے والی خاتون کا کہنا ہے کہ جوئل بہت اچھا اور تہذیب یافتہ تھا۔ اس نے مجھے کبھی پریشان نہیں کیا تھا۔
برسبین میں جوئل کے ایک پڑوسی نے بھی اس کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ لیکن وہ ذہنی مسائل سے دوچار ضرور تھا۔ اس کے والدین نے کبھی اس بات کا اعتراف نہیں کیا اور اس معاملے کو چھپاتے تھے۔ جوئل کے ہاتھوں سڈنی کے بونڈی مال جنکشن میں ہلاک ہونے والی خواتین میں ایک چینی طالبہ چینگ یو شوان بھی شامل ہے۔
آسٹریلوی دہشت گرد نے چینی طالبہ کو اس وقت نشانہ بنایا۔ جب وہ اپنے منگیتر سے فون پر بات کر رہی تھی اور اسے بتا رہی تھی کہ اب ہمارے امتحان ختم ہوگئے ہیں۔ اسی دوران چینگ کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ دیگر خواتین میں 25 سالہ ڈان سنگلٹون، دو بچوں کی ماں 47 سالہ جیڈ ینگ ور 55 سالہ پپریا ڈارشیا شامل ہیں۔ جبکہ ایک 30 سالہ قادیانی فراز طاہر بھی اس حملے میں مارا گیا۔ جو پاکستان میں جان کے خوف سے 2022ء میں آسٹریلیا بھاگا تھا۔ اسے مبینہ طور پر عورتوں والی حرکتوں کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ کیونکہ وہ ہم جنس پرست بھی تھا۔
حملے میں جان گنوانے والوں میں ایک اور خاتون پہلی بار ماں بننے والی ایک 38 سالہ ایش گڈ ہے۔ چاقو لگنے سے زخمی ہونے والے اس کی 9 ماہ کی بچی کی سرجری کی جا رہی ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے چھوٹی سی بچی کو خریداری کیلئے آنے والے دوسرے خوفزدہ لوگوں کے حوالے کر دیا۔ تاکہ وہ اسے عارضی طبی امداد فراہم کر سکیں۔
دو بھائیوں نے بتایا کہ انہوں نے خون بہنے سے روکنے کیلئے جس دکان میں پناہ لی ہوئی تھی۔ اس کی شرٹس کا استعمال کرتے ہوئے ان کی اور ان کے بچی کی مدد کرنے کی کوشش کی۔
خریداری کے لیے آئے دو بھائیوں میں سے ایک نے ٹیلی ویژن چینل نائن نیوز سڈنی کو بتایا ’ہم ابھی خریداری کر ہی رہے تھے کہ ہم نے حملہ آور کو بھاگتے ہوئے اس خاتون کی جانب جاتے دیکھا۔ جنہوں نے بچی کو اٹھا رکھا تھا۔ تب ہم دونوں نے باہر نکل کر خاتون کی مدد کی تیاری کر لی۔ لیکن میں نے اپنے بھائی سے صرف اتنا کہا کہ ’ہمیں جانا ہوگا۔ (ہم) گئے اور لوگوں سے دروازے بند کرنے کا کہا اور پھر وہ ماں آئیں جن کی بچی کا خون بہہ رہا تھا۔ اسے چاقو لگا تھا۔ ہم انہیں اسٹور میں لے گئے اور انہیں بحفاظت باہر نکال لیا اور پھر مدد کیلئے فون کیا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے بھائی نے ’بچی کو سنبھالنے میں مدد کی۔ اس کا خون بہنے سے روکنے کی کوشش کی اور (ماں کے ساتھ) بھی ایسا ہی کیا۔ خون کو بہنے سے روکنے کی کوشش کی اور ایمبولینس اور پولیس کو ٹیلی فون کیا۔ بعد ازاں تصدیق کی گئی کہ مذکورہ خاتون جان سے جانے والے لوگوں میں شامل ہیں۔