سید حسن شاہ :
ناقص تفتیش اور کمزور پراسیکیوشن کی بدولت کراچی میں اسٹریٹ کرائمز میں ملوث ملزمان بری ہونے لگے ہیں۔ رواں سال کے 3 ماہ کے دوران ڈکیتی و رہزنی کی وارداتوں میں ملوث 312 ملزمان عدم ثبوت و شواہد کی بنا پر بری کردیے گئے۔ جبکہ تفتیشی حکام محض 27 مقدمات میں ملوث ملزمان کو سزائیں دلاسکے۔
رواں سال کے 3 ماہ میں ملزمان کو سزائیں دلانے کا تناسب محض 6 فیصد رہا۔ قانونی ماہرین کے مطابق پرائیویٹ مدعی و گواہان کی عدم دلچسپی، کمزور پراسیکیوشن، تفتیش کا نظام بہتر نہ ہونے اور گواہان کے بیانات میں تضاد سے ملزمان باآسانی بری ہوجاتے ہیں۔ قانونی ماہرین کے بقول اسٹریٹ کرائم میں ملوث ملزمان کو سزائیں دلانے کیلئے الگ سے ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جو پہلے ملزمان کو گرفتار کرکے ٹھوس ثبوت و شواہد اکٹھے کرے اور پھر عدالتوں میں پیش کرے۔
اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے گزشتہ 3 ماہ میں کراچی کے 5 اضلاع کی عدالتوں سے 312 اسٹریٹ کرائم میں ملوث ملزمان عدم ثبوت و شواہد پر بری ہوئے۔ جبکہ محض 27 ملزمان کو سزائیں ہوسکیں۔ کراچی کی ضلعی عدالتوں میں اب بھی اسٹریٹ کرائمز کے 2 ہزار 771 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ سب سے زیادہ اسٹریٹ کرائم کے مقدمات ضلع شرقی میں رپورٹ ہوئے۔
ضلع شرقی کی عدالتوں سے 3 ماہ میں 122 ملزمان بری ہوئے۔ 15 ملزمان کو سزائیں ہوسکیں۔ جبکہ اب بھی ایک ہزار 14 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ضلع ملیر کی عدالتوں سے 115 ملزمان بری اور صرف ایک ملزم کو سزا ہوسکی۔ جبکہ اب بھی 791 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ضلع جنوبی کی عدالتوں سے 26 ملزمان بری اور 8 ملزمان کو سزائیں ہوئیں۔ اب بھی 409 مقدمات زیر سماعت ہیں۔
ضلع غربی کی عدالتوں سے 27 ملزمان بری اور 2 ملزمان کو سزائیں ہوئیں۔ یہاں اب بھی 221 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ضلع وسطی کی عدالتوں سے 22 ملزمان بری، جبکہ صرف ایک ملزم کو سزا ہوئی۔ ضلع وسطی میں اب بھی 336 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ یوں ملزمان کو سزائیں ہونے کا تناسب صرف 6 فیصد رہا ہے۔
اس ضمن میں ماہر قانون خرم شہزاد ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اسٹریٹ کرائمز میں ملوث ملزمان کے بری ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پرائیویٹ مدعی سامنے نہیں آتے اور نہ ہی کیس کو فالو کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس کی ناقص تفتیش بھی شامل ہے۔ تفتیشی افسران کیسز میں محنت نہیں کرتے اور خانہ پری کرکے دستاویزات عدالت میں جمع کرادیتے ہیں۔ جس پر شواہد نہ ہونے سے ملزمان چھوٹ جاتے ہیں۔
اسی طرح پراسیکیوشن بھی کمزور ہے۔ کیونکہ ان کو ملزمان کے سزا و بری ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پراسیکیوشن کے نظام کو بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ مقدمات میں پرائیویٹ گواہان شامل نہیں کیے جاتے اور پولیس اہلکاروں کو گواہ بنایا جاتا ہے۔ ان کی بھی تیاری نہیں کرائی جاتی۔ جب وہ عدالتوں میں بیان ریکارڈ کرتے ہیں تو ان کے بیانات میں تضاد سامنے آتا ہے۔ جس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے اور وہ بچ نکلتے ہیں۔
حسنین علی چوہان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پولیس میں وہ قابلیت ہی نہیں کہ شفاف اور بہتر طریقے سے تفتیش کرے۔ ہمارے ہاں تفتیش کا بہتر نظام موجود نہیں۔ پولیس اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے دستاویزات میں واقعہ کو اپنے حساب سے تحریر کرتی ہے جس سے مدعی اور گواہان لاعلم ہوتے ہیں۔ اسی سبب جب وہ عدالتوں میں پیش ہوکر بیان ریکارڈ کراتے ہیں تو اصل حقائق بیان کرتے ہیں۔ مگر کاغذی حقائق کچھ اور ہوتے ہیں اور پھر شک پیدا ہوتا ہے۔ اس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جس شہری کے ساتھ ڈکیتی یا رہزنی کی واردات ہوتی ہے وہ بیان دینے سے خوف کا شکار رہتا ہے۔ کیونکہ اسے تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔ اگر مدعی عدالت میں آتا بھی ہے تو کسی نہ کسی وجہ سے سماعت ملتوی ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مدعی یا پرائیویٹ گواہان عدالت میں نہیں آتے اور اس کا فائدہ بھی ملزمان کو پہنچتا ہے۔ ملزمان کو سزائیں دلانے کے تناسب میں اضافے کیلئے ضروری ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کے معاملات دیکھنے کیلیے الگ سے ٹاسک فورس بنائی جائے۔ جس کی سربراہی ایس ایس پی رینک کے افسر سے کرائی جائے۔
اس فورس میں نادرا کے کسی نمائندے کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ملزمان کی کیمروں سے حاصل ہونے والی فوٹیجز کو نادرا کی مدد سے تصدیق کرواکر ملزمان کا پتا لگایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹھوس ثبوت و شواہد اکٹھے کیے جائیں۔ ٹھوس ثبوت اور شواہد ہوں گے تو تب ہی ملزمان کو سزائیں ہوسکیں گی۔