اقبال اعوان :
کراچی میں کیماڑی کا نیٹی جیٹی پل ایک پھر خودکشی پوائنٹ بن گیا۔ پریشان حال شہری سمندر میں کودنے لگے۔ واقعات بڑھنے پر ایدھی فائونڈیشن نے غوطہ خور اور خصوصی ایمبولینس سروس تعینات کردی ہے تاکہ موقع پر ریسکیو کرکے جانیں بچائی جاسکیں۔ ہر ہفتے دو سے تین واقعات ہو رہے ہیں۔
واضح رہے کہ نیٹی جیٹی پل پر خودکشی کا سلسلہ گزشتہ کئی عشروں سے چل رہا ہے۔ جبکہ واقعات بڑھنے کے بعد پل کے دونوں اطراف دھاتی شیٹس لگاکر پل کی ریلنگ اور سمندر کی جانب والا سائیڈ بند کردیا گیا تھا۔ دھاتی شیٹس آٹھ، نو فٹ اونچی تھیں جبکہ پل کے نیچے جانے والے شہر یا کیماڑی کی جانب جانے والے راستے پر کچھ حصہ کھلا تھا۔ تاہم وہاں پولیس موبائل اور بحری سیکیورٹی اداروں کے اہلکار موجود ہوتے تھے۔
جبکہ کھلے حصے میں مچھلیوں کو آٹا ڈالنے والے ، پرندوں کو دانہ گوشت ڈالنے والے آتے ہیں۔ اس وقت وہاں آکر خودکشی کرنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔ تاہم پل کے اطراف کی شیٹس گزشتہ دو سال سے نشئی اور چور افراد نکال کر لے گئے اور ایک بار پھر پل اوپن ہوگیا۔ جبکہ کیماڑی جانے والے شہری ادھر بھی آجاتے ہیں۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ پر شہر آنے والے یا رکشہ، ٹیکسی پر آنے والے نوجوان یا خواتین پل پر اتر کر ادھر آجاتی ہیں اور لوگوں کے درمیان کھڑی ہوکر کسی مقام پر نیچے سمندر میں چھلانگ لگادیتی ہیں۔
شور مچنے پر ایدھی یا پولیس کو جب تک اطلاع دی جاتی ہے تب تک چھلانگ لگانے والا پانی پیٹ میں بھرنے سے یا نیچے پانی کی تہہ میں موجود پتھر لگنے یا کیچڑ میں پھنس کر ہلاک ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات پانی کے اترائو چڑھائو کا وقت ہوتا ہے اور پانی ادھر ادھر رواں ہوتا ہے تو ڈوبنے والے کی لاش دور سے تمر کے جنگلات یا ادھر ادھر پھنسی ہوئی ملتی ہے۔ ایک بار پھر خودکش پوائنٹ بننے پر ایدھی فائونڈیشن نے یہاں باقاعدہ ایمرجنسی سینٹر بنادیا ہے۔ جہاں ایک ایمبولینس موجود ہوتی ہے جس میںآکسیجن سمیت دیگر فوری طبی امداد کے آلات ہوتے ہیں۔ دوسری جانب غوطہ خور بھی موجود ہوتے ہیں۔
ایدھی کے ترجمان محمد بلال نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ایک پلاسٹک کی بوٹس بھی لگوا دی ہے کہ لوگوں کی جانیں بچائی جاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر میں روزانہ دوتین افراد کی خود کشی کا معاملہ چل رہا ہے۔ بے روزگاری ، قرضوں سے پریشانی، گھر کے اخراجات پورے نہ ہونے ، لڑائی جھگڑے بیماری کا علاج نہ کرانے کی سکت نہ ہونے کے باعث شہری خود کشیاں کر رہے ہیں۔
زیادہ تر پھندے سے لٹک کر یا گولی مارکر اور بعض خود کو آگ لگاکر جلارہے ہیں۔ اب نیٹی جیٹی کا پل خود کشی پوائنٹ بن گیا ہے۔ آئے روز شہری چھلانگ لگاتے ہیں۔ کئی افراد خواتین کو بچا لیتے ہیں۔ نیٹی جیٹی پل پر لوگوں کا آج کل صبح سے رات تک رش ہوتا ہے۔ پتا نہیں ہوتا ہے کہ خودکشی کرنے والا بھی موجود ہے۔ اگر کسی کی نظر پڑ جائے تو شور کرتا ہے ورنہ بعد میں لاش تیرتی دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی جاتی ہے۔
مچھلیوں کو ڈالنے والا آٹا فروخت کرنے والے ہاشم کا کہنا تھا کہ گزشتہ 32 سال سے یہ کام اس جگہ کر رہا ہے۔ اب چند ماہ سے خودکشی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوچکا ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں ہر عمر کے مرد و خواتین شامل ہیں۔ جب دھاتی شیٹس لگی ہوتی تھیں تو کوئی ان کی جانب آتا تھا تو اندازہ کرکے بلوالیتے تھے کہ پانی کے قریب کیوں جارہے ہو اور تسلی دے کر بھیج دیتے تھے۔
اب ادھر پل پر گاڑی سے اترے اور ادھر ریلنگ سے کود کر چھلانگ لگادیتے ہیں۔ شہر میں دو درجن ساحلی تفریحی مقامات ہیں۔ تاہم خود کشی کرنے والوں کو یہ جگہ نظر آتی ہے۔ اب گاہک کے ساتھ ساتھ یہ نظر رکھتے ہیں کہ کوئی پانی میں خودکشی کے لئے کودا تو نہیں ہے۔ راتوں کو ہم چلے جاتے ہیں تب کوئی کود جائے تو صبح لاش تیرتی ملتی ہے۔ یہاں آٹا، پھیپھڑے ، باجرہ اور پانی فروخت کرنے والے 40 کے قریب افراد روزگار کرتے ہیں ان میں عورتیں بھی ہیں۔
آٹا فروخت کرنے والے عبدالسلام کا کہنا تھا کہ اس کو تیراکی آتی ہے۔ گزشتہ 24 سال سے یہ روزگار کر رہا ہے۔ کئی بار اس نے خود بھی لوگوں کو نکالنے میں مدد دی اور خودکشی کے لیے کودنے والوں کی نشاندہی بھی کی۔
اس کا کہنا تھا کہ خود کشی کے لئے کودنے والا مرد ہو یا عورت ہو۔ اگر بچ جائے تو خوشی ہوتی ہے۔ اگر مرجائے تو سب کو دکھ ہوتا ہے کہ اس کو وقت پر بچا نہ سکے۔