ارشاد کھوکھر:
چار روز قبل بلوچستان سے اسلحہ اسمگلنگ کرنے میں ملوث ہونے کے الزامات کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے مشیر اللہ ڈنو خان بھیو المعروف بابل خان بھیو کی جانب سے عہدے سے مستعفی ہوجانے کے بعد عہدے سے فارغ ہوجانے کی خبر غلط نکلی۔
صوبائی مشیر کی جانب سے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد با اثر خاتون سیاستدان نے صوبائی مشیر کو چھتری فراہم کرتے ہوئے ان کا استعفیٰ منظور نہ ہونے کے زبانی احکامات جاری کردیے جبکہ غیر قانونی اسلحے کی اسمگلنگ میں صوبائی مشیر کے بیٹے الطاف بھیو جونیئر کو پہلے ہی کلین چٹ دی گئی تھی۔
حساس اداروں و پولیس نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے صوبائی مشیر کو دی گئی پولیس موبائل کی پروٹیکشن میں اسلحے کی کی جانے والی اسمگلنگ کو ناکام بنایا تھا۔ اس سلسلے میں جیکب آباد پولیس نے صوبائی مشیر کے اسکواڈ میں شامل ایک اے ایس آئی ، دو پولیس اہلکاروں سمیت سات افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے تحقیقات شروع کردی ہیں۔
مذکورہ واردات ہونے سے قبل صوبائی مشیر نے صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار اور آئی جی سندھ پولیس غلام نبی میمن کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام بھی کیا تھا۔ بابل خان بھیو پہلے کرپشن کے الزام میں تقریباً ڈیڑھ برس نیب کی تحویل میں بھی رہ چکے ہیں اور ان پر ڈاکوئوں اور مختلف کرمنلز سے تعلقات کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ تاہم بعض حلقے یہ سوال بھی اٹھارہے ہیں کہ اسلحہ اسمگلنگ کی مخبری کے پیچھے سیاسی رنجش کا عنصر بھی ہوسکتا ہے۔
تقریباً چار روز قبل میڈیا میں اس وقت تہلکہ مچ گیا جب یہ خبر آئی کہ ضلع جیکب آباد کے تھانہ مولاداد کی حدود میں ایک ویگو گاڑی شکارپور پولیس کی موبائل میں بلوچستان سے اسلحہ اسمگلنگ سے کوشش ناکام بنادی گئی۔ یہ بات فوری طور پر سامنے آگئی کہ پولیس موبائل ضلع شکارپور کی ہے جو متعلقہ ایس ایس پی نے سیکورٹی اسکواڈ کے ساتھ وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر جنگلات و جنگلی حیات اللہ ڈنو خان بھیو المعروف بابل خان بھیو کو الاٹ کی تھی۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ویگو گاڑی میں صوبائی مشیر کا بیٹا الطاف بھیو جونیئر بھی موجود تھا۔ لیکن بعد ازاں اوپر کی مداخلت کے باعث اس کی گرفتاری ظاہر نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کا نام اسلحہ اسمگلنگ کرنے کے حوالے سے ضلع جیکب آباد کے تھانہ مولا داد کے ایس ایچ او اشتیاق کی مدعیت میں درج کیے گئے مقدمے میں شکارپور پولیس کے ایک اے ایس آئی امتیاز بھیو ، دو سپاہی بقا اللہ انڑ اور ثنا اللہ مگنہار ، چار نجی افراد جن میں ذاکر بھیو، نبیل بھیو، توفیق گجر اور اختیار لاشاری کے نام شامل ہیں۔
مقدمے میں اسمگلنگ ہونے والا جو اسلحہ ظاہر کیا گیا ہے اس میں ایک جی تھری، ایک کلاشنکوف اور تقریباً 2 ہزار 350 گولیاں شامل ہیں۔ دوروز قبل پولیس نے ملزمان کو شکارپور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کرکے پانچ دن کا ریمانڈ لے لیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تینوں پولیس اہلکار صوبائی مشیر بابل خان بھیو کے اسکواڈ میں شامل رہے ہیں۔ جبکہ اختیار لاشاری کے متعلق یہ معلوم ہوا ہے کہ اس کا تعلق اسلحے کا غیر قانونی کاروبار کرنے والوں سے ہے۔ اور باقی جو تین دیگر پرائیوٹ پرسن ہیں وہ بھی بابل خان بھیو کے بیٹے اور ان کے پرائیوٹ گارڈز میں شمار ہوتے ہیں۔
ایس ایس پی جیکب آباد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی سربراہی میں دو ڈی ایس پیز اور دیگر پولیس افسران پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دیدی ہے۔ ملزمان سے تفتیش جاری ہے۔ مذکورہ پولیس افسر کا یہ موقف بھی سامنے آیا ہے کہ جب کارروائی کی گئی اس وقت صوبائی مشیر کا بیٹا ان ملزمان کے ساتھ نہیں تھا۔ جبکہ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ الطاف بھیو ویگو گاڑی میں موجود تھا۔ اور اس کی نگرانی میں یہ اسلحہ اسمگلنگ کیا جارہا تھا۔ جنہیں حکومت سندھ کی ایک اہم شخصیت نے مداخلت کرکے انہیں ریسکیو کرایا۔
مذکورہ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد صوبائی مشیر بابل خان بھیو نے میڈیا کے مختلف نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اسلحہ کی مذکورہ اسمگلنگ سے ان کا اور نہ ہی ان کے بیٹے کا کوئی تعلق ہے۔ میڈیا میں مذکورہ اسکینڈل میں ان کے بیٹے اور ان کے اپنے ملوث ہونے کی خبروں سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ اس لئے مذکورہ اسکینڈل کی شفاف تحقیقات ہونے کے لئے وہ مشیر کے عہدے سے مستعفی ہورہے ہیں تاکہ حکومتی عہدہ ہونے کے باعث وہ اس حوالے سے ہونے والی کسی بھی تحقیقات پر اثر انداز نہ ہوسکیں۔
صوبائی مشیر کا مذکورہ بیان آنے کے بعد الیکٹرانک میڈیا ، پرنٹ میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا میں بھی ابھی تک یہ خبریں چل رہی ہیں کہ وہ مستعفی ہوچکے ہیں۔ اور انہیں مشیر کے عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ بابل خان بھیو ابھی بھی مشیر کے عہدے پر براجمان ہیں۔ گزشتہ روز تک انہیں مشیر کے عہدے سے ہٹانے کے لئے بھی نوٹیفائی نہیں کیا گیا تھا۔ ایک اور ذریعے کا کہنا ہے کہ بابل خان بھیو کے پیپلز پارٹی کی بااثر خاتون سیاستدان سے بہتر تعلقات رہے ہیں۔ ان کی مداخلت کے باعث ان کے استعفیٰ کا معاملہ آگے بڑھنے سے روکا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی مشیر کے دعویٰ کے مطابق اگر مذکورہ اسلحے کی اسمگلنگ میں ان کا بیٹا یا وہ خود ملوث نہیں ہیں تو پھر کیا وجہ تھی کہ ان کے سیکورٹی اسکواڈ پر مامور پولیس موبائل کی پروٹیکشن میں اسلحہ اسمگل کیا جارہا تھا۔ اور اس کی کیا وجہ تھی کہ جب پولیس اسکواڈ بھی شامل ہو تو دن کے بجائے رات کے اندھیرے میں سفر کرنے کو ترجیح کیوں دی گئی اور جیکب آباد سے مین راستے سے شکارپور آنے کے بجائے جیکب آباد سے شیراپور والے سنسنان روڈ سے جانے کی کیوں کوشش کی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ صوبائی مشیر بابل خان بھیو کے مختلف قبائل سے پرانا تصادم چل رہا ہے جن میں مارفانی، قمبرانی قبائل کے ساتھ ان کے اپنے بھیو خاندان سے تعلق رکھنے والے بعض افراد سے بھی خونریز تصادم رہا ہے۔ اور ماضی میں ان پر ڈاکوئوں اور دیگر کرمنلز سے تعلقات کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اور تاوان کے بدلے ڈاکوئوں سے مغویوں کو رہا کرانے میں مذکورہ مشیر کے اثررسوخ کا استعمال بھی میڈیا میں گردش کرتا رہا ہے۔ شمالی سندھ میں جہاں تک ڈاکو راج کا سوال ہے تو اس میں بھیو قبیلے سے تعلق رکھنے والی گینگ بھی شامل ہے۔ اور ماضی میں مذکورہ صوبائی مشیر کرپشن کے الزام میں تقریباً ڈیڑھ برس نیب کی تحویل میں بھی رہ چکے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلحے کی اسمگلنگ کا اسکینڈل سامنے آنے سے چند روز قبل بابل خان بھیو نے ایک دعوت کا اہتمام کیا تھا جس میں صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار، آئی جی سندھ پولیس اور دیگر افسران نے بھی شرکت کی تھی۔ اس ضمن میں سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسی دعوت کا اہتمام کرنا معمول کی بات ہے کیونکہ وہ خود صوبائی مشیر ہیں۔ اس لئے ان کی دعوت میں کسی اعلیٰ پولیس افسر ، یا دیگر وزرا کا شریک ہونا معمول کی بات ہے۔ اس کا تاثر اور نہ لیا جائے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور کئی صوبائی وزرا کچے کے علاقے میں امن و امان کی صورتحال زیادہ خراب ہونے کے متعلق یہ موقف پیش کرتے رہے ہیں کہ نگران دور میں صورتحال زیادہ خراب ہوئی ہے اور سب سے بڑھ کر وہ یہ سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس اتنا جدید اسلحہ کیسے پہنچ رہا ہے۔ اب اسلحے کی اسمگلنگ کا جو یہ اسکینڈل سامنے آیا ہے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس اسلحے کی اسمگلنگ میں باضابطہ طور پر تانے بانے کہاں جاکے ملتے ہیں۔ اور سرکاری حکام کا کیا موقف سامنے آیا ہے۔