محمد قاسم :
صوبہ خیبرپختون کے وزرا اور اراکین اسمبلی نے وزیراعلیٰ ہائوس کو ٹک ٹاک بنانے کیلئے ایکسرسائز کلب اور کرکٹ گرائونڈ میں تبدیل کردیا۔ ٹک ٹاک پر وڈیو وائرل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹرز اور وزرا وزیراعلیٰ ہائوس آکر اپنے کام سے زیادہ ٹک ٹاک بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ علی امین اور ایم این اے اقبال آفریدی کے درمیان کرکٹ میچ کی ویڈیو ان کے دوستوں نے ٹک ٹاک پر اپلوڈ کردی۔ جس پر کارکنوں نے شدید تنقید کی ہے کہ وزیراعلیٰ ہائوس کے تقدس کا خیال رکھا جائے۔
صوبائی وزرا اور پرنسپل سیکریٹریز بھی وزیراعلیٰ ہائوس پر ملاقاتوں میں کام کے بجائے ٹک ٹاک پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ ہائوس کے اندر پریس کانفرنسز میں بیوروکریسی وہی پرانے حربے استعمال کر رہی ہے اور چند صحافیوں کو بلواکر ہینڈ آئوٹ جاری کردیا جاتا ہے۔
غیرجانبدار صحافیوں کو بلانے سے اس لئے گریز کیا جاتا ہے کہ کوئی سخت سوال یا کوئی ایسی نشاندہی نہ کردے۔ جس پر وزیراعلیٰ ایکشن لے لیں۔ جبکہ وزیراعلیٰ کو بھی بریفنگ ایسی دی جارہی ہے، کہ جس سے ان کو اشتعال آجائے اور علی امین گنڈاپور کو ایک مزاحمت کار کے طور پر پیش کیا جائے۔ جس سے وفاق، پنجاب اور خیبرپختون کے درمیان محاذ آرائی پیدا ہو۔ تاکہ بیوروکریسی کی گزشتہ دس برس کی نااہلی کو چھپایا جاسکے۔
گزشتہ دو مہینوں سے صوبائی حکومت کے پُرزور مطالبے کے باوجود چیف سیکریٹری کو اب تک تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ ذرائع کے مطابق صوبہ خیبرپختون میں گزشتہ ڈیڑھ برس سے نگران حکومت کے لگائے گئے سیکریٹریز کام کر رہے ہیں۔ جن کو یہ یقین ہے کہ انہیں تبدیل یا افسر بکار خاص لگایا جائے گا۔ اسی لئے گزشتہ دو ماہ سے سرکاری کام ٹھپ ہیں۔
ذرائع کے مطابق ٹک ٹاک پر وزرا اور اراکین اسمبلی کی جانب سے ویڈیوز اپلوڈ کرنے کا سللسہ جاری ہے۔ جبکہ عوامی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ذرائع کے بقول صوبائی مشیر سماجی بہبود مشال یوسفزئی جو عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی خود ساختہ ترجمان تھیں، نے ٹک ٹاک کیلئے خصوصی افراد رکھے ہوئے ہیں۔
مشال یوسفزئی کے سفر سے لے کر غریب خواتین کو امدادی چیک دینے تک کیلئے ٹک ٹاک کا سہارا لیا جارہا ہے۔ جس پر اکثر تنقید بھی ہو رہی ہے۔ مشال یوسفزئی کی وجہ سے گزشتہ دنوں صحافیوں اور حکومت کے درمیان اس وقت تنازعہ پیدا ہوگیا۔ جب مشال یوسفزئی نے خاتون صحافی نادیہ صبوحی کو موقف دینے کے بجائے ان پر فوج اور معظم بٹ ایڈووکیٹ سے پیسے لینے کا الزام عائد کیا۔ اس پر صحافیوں کی جانب سے حکومت کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا۔ جس پر حکومت کے مشیر اطلاعات اور مشال یوسفزئی کو خاتون صحافی سے معافی مانگنی پڑی۔ تاہم اس کے باوجود حکومتی امور پر توجہ نہیں دی جارہی اور ساری توجہ واک، کھیل اور ورزشوں کی وڈیو بنانے پر مرکوز ہے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کی رہائی تک وزیر اعلیٰ علی امین کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔ کیونکہ عمر ایوب، بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت اور پرانے پی ٹی آئی رہنمائوں کے اپنے اپنے گروپ وزیراعلیٰ ہائوس آکر اپنے اپنے مشورے دے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق خیبرپختون کے سینٹ کا انتخاب بھی ان رہنمائوں کی ہی وجہ سے نہ صرف ملتوی ہوا۔ بلکہ وزیراعلیٰ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر تک کو توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑا۔