امت رپورٹ:
پی ٹی آئی نے صوابی میں تین سے چار سو نوجوان کارکنوں کی ایک ایسی ٹاسک فورس بنائی ہے، کہ اگر اسلام آباد پر چڑھائی کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا تو انہیں استعمال کیا جاسکے۔ فی الحال ان ڈائے ہارڈ کارکنوں کو اسلام آباد اور خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں مظاہروں میں لایا جارہا ہے۔ ان کی رہائش کے لئے صوابی کے مشہور کنڈ پارک میں خیمے لگاکر ایک ’’ بیس کیمپ‘‘ بنایا گیا ہے۔ ان کارکنوں کو یومیہ دیہاڑی دی جارہی ہے اور ان کا کھانا پینا بھی مفت ہے۔
اس ’’بیس کیمپ‘‘ کا دورہ کرنے والے ایک ذریعے نے بتایا کہ اس کیمپ میں خیبرپختونخوا ، بلوچستان ، گلگت بلتستان سمیت ملک کے دیگر شہروں سے نوجوان ورکرز کو جمع کیا گیا ہے۔ فی الحال یہ تعداد تین سے چار سو ہے، لیکن اس میں اضافہ کیا جائے گا۔ ان سرگرمیوں کا آغاز رمضان سے پہلے ہوا تھا۔ یہ کارکنان عید پر اپنے علاقوں کو واپس چلے گئے تھے۔ تاہم اب دوبارہ ’’بیس کیمپ‘‘ میں آچکے ہیں۔ ذریعے کے بقول ان کارکنوں کی دیہاڑیوں اور کھانے پینے کے اخراجات کا بندوبست وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کر رہے ہیں۔ جبکہ یہ ’’ٹاسک فورس‘‘ علیمہ خان کے احکامات پر عمل کرتی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے میں اسلام آباد میں ہونے والے مظاہروں میں ان ہی کارکنوں کو صوابی سے امپورٹ کیا گیا تھا۔ ذریعے کے مطابق چونکہ عام کارکن اس وقت رضاکارانہ طور پر باہر نکلنے کے موڈ میں نہیں، لہٰذا اس ’’ٹاسک فورس‘‘ کو اس خیال کے ساتھ بنایا گیا ہے کہ کم از کم اسلام آباد میں ہونے والے مظاہروں میں چند سو افراد تو پکے ہوں۔ صوابی سے اسلام آباد کی ڈرائیو تقریباً ڈیڑھ گھنٹے پر محیط ہے۔ جہاں تک خیبرپختونخوا کی بات ہے تو وہاں سرکاری مشینری کے ذریعے کچھ نہ کچھ کارکنان جمع کرلئے جاتے ہیں۔
جمعہ کے روز اسلام آباد میں ہونے والے مظاہرے میں بھی انہی کارکنان کو صوابی سے لایا گیا تھا جو زندہ باد ، مردہ باد کے نعرے لگاکر اپنے ’’بیس کیمپ‘‘ واپس چلے گئے۔ چند روز پہلے بنی گالا کے باہر پی ٹی آئی کے چند درجن کارکنان نے تقریباً ایک برس بعد مظاہرہ کیا، جس میں مٹھی بھر خواتین کو آگے رکھا گیا تھا۔ جبکہ باقی نوجوان کارکنان صوابی کیمپ سے ہی امپورٹ کئے گئے تھے۔
اس موقع پر اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ مٹھی بھر کارکنان عمران خان اور بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کی رہائی کے نعرے لگانے کے بعد منتشر ہوگئے۔ ان کارکنان نے اپنی پارٹی قیادت کو بھی بری طرح لتاڑا۔ ان کا کہنا تھاکہ عمران خان کو جیل میں آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن پارٹی قیادت ٹھنڈ پروگرام چلارہی ہے۔ کوئی عمران خان کی رہائی کے لئے باہر نہیں نکل رہا۔ ساتھ ہی پارٹی قیادت کو طعنے دیئے گئے کہ وہ خان کے بغیر ایک سیٹ بھی نہیں لے سکتے۔
عمران خان کے لئے المیہ یہ ہے کہ الیکشن کے بعد سے ان کی پارٹی کی جانب سے اعلان کردہ احتجاجی تحریک بری طرح فلاپ ہورہی ہے۔ اب تک ہونے والے نصف درجن کے قریب احتجاجی مظاہروں یا ریلیوں میں ملک بھر سے چند ہزار لوگ بھی باہر نہیں نکلے ہیں۔ اس سلسلے میں جمعہ کے روز ہونے والا شو بھی سپر فلاپ رہا۔ اس کا اعتراف خود پی ٹی آئی کی محبت میں گرفتار بعض یوٹیوبرز نے بھی کیا جبکہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کارکنوں نے جی بھر کر پارٹی قیادت کو برا بھلا کہا۔ بالخصوص حماد اظہر کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جارہاہے۔
حماد اظہر اس وقت پی ٹی آئی پنجاب کے قائم مقام صدر اور سیکریٹری جنرل ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے اپنے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ تاہم اس استعفے کو منظور نہیں کیا گیا تھا۔ حماد اظہر ایک طویل عرصے سے روپوش تھے۔ کچھ عرصہ پہلے منظر عام پر آئے اور تھوک کے حساب سے ضمانتیں حاصل کرنے کے باوجود پی ٹی آئی کے مظاہروں میں شرکت سے گریزاں ہیں۔ پی ٹی آئی کارکنوں نے اسی کو لے کر سوشل میڈیا پر انہیں بری طرح رگیدا ہے
۔ پی ٹی آئی کارکنان کے بقول عمران خان کی ہدایات کے باوجود پنجاب کی پارٹی قیادت پنجاب، بالخصوص لاہور کو جگانے میں مسلسل ناکام ہورہی ہے۔ کوئی باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ پنجاب اسمبلی کی درجنوں سیٹیں لینے والے ارکان بھی دبکے ہوئے ہیں۔ یہ صورت حال جیل میں مقید خود ساختہ انقلابی کے لئے مایوس کن ہے۔ واقفان حال کے مطابق بانی پی ٹی آئی ملاقات کے لئے آنے والے پارٹی رہنمائوں کو احتجاج میں جان ڈالنے کی ہدایت دے کر بھیجتے رہے ہیں لیکن نتیجہ ڈھاگ کے تین پات نکل رہا ہے۔ حتیٰ کہ خیبرپختونخوا، جہاں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے اور ساری سرکاری مشینری بھی اس کے ہاتھ میں ہے، لیکن وہاں بھی اب تک کوئی قابل ذکر مظاہرہ نہیں کیا جاسکا ہے، جسے کامیاب شو قرار دیا جاسکے۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایک سابق عہدیدار کا، جو اس وقت پارٹی سے کنارا کئے بیٹھا ہے، کہنا تھا ’’کوئی باہر نکلنے کے لئے تیار نہیں، اور پھر کیوں باہر نکلے گا؟ کارکنان نے دیکھ لیا ہے کہ کس طرح سانحہ 9 مئی میں گرفتار عام کارکنان رُل گئے ہیں اور بیشتر نامساعد حالات میں اپنی جیب سے وکلا کی فیسیں ادا کر رہے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پی ٹی آئی وکلا کی فوج کا سارا فوکس عمران خان اور ان کی اہلیہ کے کیسوں پر ہے۔ خود عمران خان کو بھی صرف بشریٰ بی بی کی فکر ستارہی ہے۔ پارٹی کی گرفتار خواتین کے لئے وہ کبھی کبھار رسماً ایک آدھ بیان دے دیتے ہیں۔ ایسے میں کون باہر نکلے گا؟‘‘