اگر پی آئی اے کو بیچنا ہے تو حکومت کو بڑا دل کرنا پڑے گا، فائل فوٹو
اگر پی آئی اے کو بیچنا ہے تو حکومت کو بڑا دل کرنا پڑے گا، فائل فوٹو

پی آئی اے نجکاری، 5 ہزار ملازمین بے روزگار ہوں گے

سید نبیل اختر:
پی آئی اے کی نجکاری کی صورت میں پانچ ہزار سے زائد ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے، جن کے اربوں روپے کے واجبات سے متعلق اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا ہے۔ یہ اعداد و شمار پی آئی اے کے شعبہ ایچ آر سے حاصل کیے گئے ہیں۔ ان میں وہ 1200 ملازمین شامل نہیں، جن کی عمر 55 برس سے زائد ہے۔ پی آئی اے کے نئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں مذکورہ عمر رسیدہ ملازمین کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ انہیں مکمل واجبات ادا کر کے ہی رخصت کیا جائے گا۔

باقی رہ جانے والوں میں سے بہترین کارکردگی کے حامل 2 ہزار ملازمین پی آئی اے کی خریدار کمپنی کا حصہ رہیں گے۔ جب کہ 5 ہزار سے زائد ملازمین کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔ پی آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق ان ملازمین کو مراعات کے ساتھ فارغ کرنے پر 44 ارب روپے سے زائد رقم درکار ہے۔ یہ خطیر رقم کہاں سے آئے گی اور ادائیگیاں کیسے کی جائیں گی؟ اس ضمن میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکا ہے۔

واضح رہے کہ پی آئی اے کے حوالے سے آئی ایم ایف نے حکومت کو جولائی 2024ء کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ قومی ایئر لائن کی نجکاری بہر صورت یقینی بنائی جائے۔ اس کے بعد ہی قرض کی ادائیگی کی جائے گی۔ حکومت کو آئی ایم ایف کی جانب سے دی گئی ہدایات کے مطابق سب سے پہلے پی آئی اے اور پھر اسٹیٹ لائف انشورنس کی نجکاری کرنا ہے۔ مذکورہ ڈیڈ لائن سامنے آنے کے بعد پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے اقدامات تیز کردیے گئے ہیں۔

پی آئی اے کے ایک اعلیٰ سطح کے افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ، وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد فنانشل ایڈوائزر کنسورشیم کے طور پر میسرز ای وائی کنسلٹنگ ایل ایل سی دبئی کی خدمات حاصل کی جاچکی ہیں جو پی آئی اے کی نجکاری سے قبل اس کے اثاثہ جات کی قیمتوں کا تعین کررہی ہے تاکہ خریدار کمپنیوں کو پروڈکٹ بیچتے وقت بتایا جاسکے کہ اسے کس قدر منافع بخش ادارہ فروخت کیا جارہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کی جانب سے پی آئی اے کے اتنے ہی شئیرز، خریدار کمپنی کو دیے جائیں گے جو ماضی میں کسی بھی قومی ادارے کی نجکاری کے وقت دیئے گئے ہیں۔ قبل ازیں سعودی عرب ، ترکیہ ، ملائشیا، قطر اور امارات نے بھی پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ تاہم تینوں خریداروں کی جانب سے پی آئی اے کی ’’اصل قیمت‘‘ (EVALUATION REPORT) کی درست اور مستند معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

پی آئی اے کی اعلیٰ انتظامیہ کے اجلاس میں ائیر لائن کے حوالے سے تقریباً وہی تجاویز سامنے آئی ہیں جو اس سے قبل 2016ء میں ایئر لائن کے مالیاتی مشیر دبئی اسلامک بینک نے دی تھیں، جنہیں ایئر لائن اور اس کے انفرا اسٹرکچر، روٹس، وسائل، اہلیت، انتظامیہ و دیگر کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ ’’امت‘‘ کو پی آئی اے ذرائع نے بتایا کہ اس بار پی آئی اے کو دو حصوں ’’کور‘‘ اور ’’نان کور‘‘ میں تقسیم کرنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت پی آئی اے کے لیے صرف دو ہزار ملازمین رکھے جائیں گے۔ اور دیگر کو گولڈن ہینڈ شیک یا کسی دوسری سرکاری اسکیم کے تحت فار غ کردیا جائے گا۔

خریدار کمپنی ان ملازمین کے ذریعے ایئر لائن آپریشن کو چلانا شروع کرے گی۔ لیکن اسے اختیار ہوگا کہ وہ اہلیت کی بنا پر ملازم سے خدمات حاصل کرے یا انہیں پاکستانی لیبر قوانین کے تحت فارغ کردے۔ پی آئی اے انتظامیہ کی جانب سے بھی حکومت کو کچھ تجاویز دی گئی ہیں کہ پی آئی اے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ اسے پی آئی اے ون اور پی آئی اے ٹو کا نام دیا جائے۔ پی آئی اے ون کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں ہو، جبکہ پی آئی اے ٹو کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہو۔

پی آئی اے کے تمام شعبہ جات میں مستند اور ایوی ایشن کے ماہر ملازمین و افسران آپریشنل ایریاز میں کام کریں گے اور ان ملازمین سے ہی شفٹوں میں کام لیا جائے۔ جبکہ پی آئی اے ٹو میں کام کرنے والے ملازمین دن کے اوقات میں کام کریں گے اور انہیں پی آئی اے کا ملازم شمار نہیں کیا جائے۔ پی آئی اے ون کے لیے صرف 30 فیصد پائلٹس رکھے جائیں۔

انجینئر نگ، آئی ٹی، کمیونیکیشن اور فلائٹ سیفٹی کے لئے 35 فیصد اسٹاف رکھا جائے جو فلائٹ سیفٹی ایکسپرٹ انجینئر نگ اور ٹیکنیکل قابلیت کے حامل اور ایوی ایشن لائسنس یافتہ ہو۔ جبکہ 5 فیصد اسٹاف کارپوریٹ، فنانس، ہیومن ریسورس اور مینجمنٹ پوزیشنز پر رکھے جائیں جو کم از کم گریجویٹ ہوں اور ایوی ایشن کا وسیع تجربہ رکھتے ہوں۔ پی آئی اے پرسیشن انجینئرنگ سے اپنا کنٹرو ل ختم کردے اور اسے واپس حکومت کے حوالے کردیا جائے۔

شعبہ انجینئرنگ ختم کرکے اسے مینٹی ننس و ری پیئرنگ آرگنائزیشن ( ایم آر او) میں تبدیل کردیا جائے تاکہ وہ پی آئی اے کے ساتھ ساتھ دیگر فضائی کمپنیوں کی خدمات کے عوض کمرشل ادارے کے طور پر کام کرے۔ لیکن یہ ادارہ پی آئی اے ہی کا ذیلی ادارہ ہو۔

ادھر پی آئی اے میں سودا کار یونین کے مرکزی صدر ہدایت اللہ نے نجکاری کی صورت میں ملازمین کی برطرفی کے فیصلے پر ملک گیر احتجاج کی کال دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نجکاری کے لیے کیے جانے والے اقدامات غیر قانونی و غیر آئینی ہیں۔ پی آئی اے کی نجکاری کی صورت میں ملازمین کو برطرف کیا گیا تو پی آئی اے کا مزدور سڑک پر احتجاج کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ نجکاری اور ملازمین کی برطرفی کے حوالے سے انتظامیہ نے اب تک کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا ہے۔ ہم اسٹار گیٹ پر احتجاج کی منصوبہ بندی کررہے اور حکومتی ہٹ دھرمی برقرار رہی تو احتجاج کا دائرہ ملک بھر میں پھیل جائے گا۔ ہدایت اللہ کے بقول حکومت پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر پی آئی اے کی نجکاری نہیں کرسکتی۔ جبکہ چاروں صوبوں کے وزرا اعلیٰ کی منظوری بھی لی جائے گی۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز میں جن اراکین کو شامل کیا گیا ہے، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

رائج قانون کے مطابق پی آئی اے کا نام تبدیل کیا جاسکتا اور نا ہی اس کا ہیڈاکوارٹر کراچی سے کسی دوسرے شہر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ پی آئی اے ون اور ٹو اور ہیڈکوارٹر کی اسلام آباد منتقلی کا خواب دیکھنے والوں کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ 3 مئی کو موصولہ درخواستوں کے بعد تصویر کلیئر ہوگی۔ تاہم اب تک کی اطلاعات یہ ہیں کہ پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی لینے والوں نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔