میئر لندن نے پہلے سے بھی زیادہ ووٹ لیے، فائل فوٹو
میئر لندن نے پہلے سے بھی زیادہ ووٹ لیے، فائل فوٹو

صادق خان کا انتخاب فلسطینیوں کی فتح قرار

محمد علی:
لندن کے میئر صادق خان کا دوبارہ انتخاب جیتنا فلسطینیوں کی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔ برطانوی دارالحکومت لندن کے شہریوں بالخصوص مسلمانوں نے اسرائیل نواز کنزرویٹو پارٹی کی حکومت کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے۔ جس کا وزیراعظم ایک بھارتی نژاد تاجر ہے۔

برطانوی اخبار گارجین کے مطابق لیبر پارٹی کے خلاف بھی برطانوی مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کیونکہ ان کے بہت سے امیدواروں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار برطانوی پالیسی سازوں کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ میئر لندن کے انتخاب کیلئے کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ لیکن فلسطین اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کے سبب صادق خان کو پہلے سے بھی زیادہ ووٹ پڑے۔

صادق خان اور ان کی حریف سوزن ہال کے درمیان دور دور تک کوئی مقابلہ نظر نہیں آیا۔ یوں پاکستانی نژاد صادق خان میئر لندن کے انتخاب میں پہلے سے بھی زیادہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ ان کی اس فتح کو غزہ کے حوالے سے ان کے انسانیت دوست موقف سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ صادق خان مسلسل تیسری بار لندن کے میئر منتخب ہوئے ہیں۔ 53 سالہ صادق خان کی کامیابی کو برطانیہ کی حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی کیلئے انتخابات سے قبل یہ بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ ہفتے کو انتخابی نتائج کے مطابق صادق خان کو 10 لاکھ سے زائد یعنی 44 فیصد ووٹ ملے۔ انہوں نے مد مقابل کنزرویٹو پارٹی کی سوزن ہال سے 11 فیصد زائد ووٹ حاصل کیے۔

واضح رہے کہ بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات کیلئے جمعرات کو ووٹنگ ہوئی۔ صادق خان 2016ء میں پہلی بار میئر لندن منتخب ہوئے تھے۔ ماہرین اس الیکشن کو صادق خان کیلئے ایک بڑا چیلنج قرار دے رہے تھے۔ خاص طور پر گزشتہ برس لندن میں چاقو سے حملوں کے واقعات اور جرائم کی شرح میں اضافے پر انہیں تنقید کا سامنا تھا۔

صادق خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ بطور میئر ان کی کارکردگی نے تیسری مرتبہ منتخب ہونے کی راہ ہموار کی ہے۔ جس میں گھروں کی تعمیر، ٹرانسپورٹ اخراجات میں کمی، چھوٹے بچوں کیلئے اسکولوں میں مفت کھانا اور خاص طور پر اقلیتوں سے متعلق پالیسیاں قابلِ ذکر ہیں۔

جبکہ صادق خان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ لندن میں اینٹی کار پالیسی اور ویک اینڈز پر فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہروں کی اجازت دی۔ انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد خطاب کرتے ہوئے صادق خان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں مسلسل منفی مہم کا سامنا تھا۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ ہم نے خوف کا جواب حقائق کے ساتھ، نفرت کا جواب امید کے ساتھ اور تقسیم کرنے کی کوششوں کا متحد ہو کر جواب دیا‘۔

ہفتے کو ہونے والے انتخابات میں لیور پول، گریٹر مانچسٹر اور ویسٹ یارک شائر سے بھی لیبر پارٹی کے میئرز دوبارہ منتخب ہو گئے۔ ماہرین کے مطابق لیبر پارٹی کے لیے بلدیاتی انتخابات میں سب سے اچھا رزلٹ ویسٹ مڈلینڈ میں رہا، جہاں سے کنزرویٹو اْمیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لیبر پارٹی نے انگلینڈ کی بہت سی ایسی کونسلز میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ جہاں کئی برسوں سے کنزرویٹو پارٹی کا کنٹرول تھا۔

ماہرین کے مطابق رشی سوناک کیلئے یہ باعث اطمینان ہوگا کہ انگلینڈ کے شمال مشرق میں ٹیز ویلی کے کنزرویٹو میئر دوبارہ کامیاب ہو گئے۔ تاہم ویسٹ مڈ لینڈ میں اینڈی اسٹریٹ کی لیبر پارٹی کے رچرڈ پارکر کے ہاتھوں شکست اْن کی توقعات کے برخلاف ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ لیبر پارٹی کیلئے بلدیاتی انتخابات میں ایک منفی پہلو مسلم اکثریتی علاقوں میں کم ووٹ پڑنا ہے۔ جس کی وجہ لیبر پارٹی کا اسرائیل نواز موقف سمجھا جاتا ہے۔

لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر نے ایک بیان میں تسلیم کیا کہ اْن کے مسلم ووٹرز کے ساتھ کچھ مسائل رہے ہیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق اسٹارمر آئندہ انتخابات کے بعد برطانیہ کا وزیرِ اعظم بننے کیلئے اب مضبوط پوزیشن پر آگئے ہیں۔ واضح رہے برطانوی وزیرِاعظم رشی سونک کے پاس انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار ہے۔ جس کیلئے وہ جون کے بعد کی تاریخ دینے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ تاہم اسٹارمر فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔