عمران خان:
وفاقی حکومت کی جانب سے سائبر کرائمز کی تحقیقات کیلئے علیحدہ سے نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعد اس کے نئے ڈائریکٹر جنرل آفس کے قیام کیلئے تیزی سے کام شروع کر دیا گیا ہے۔
معاملات سے آگاہ ذرائع کے مطابق، سائبر کرائم ونگ کو ایف آئی اے سے لینے اور علیحدہ ادارہ بنانے کا تعلق ملک کی حالیہ صورت حال سے منسلک ہے، جس میں سوشل میڈیا پر ریاست اور ملکی اداروں کے خلاف منفی مہم زوروں پر ہے۔ ریاستی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ پروپیگنڈے کے ذریعے ملک اور ریاست کو نشانہ بنانے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا وقت آچکا ہے۔
سائبر کرائمز ونگ کے افسران کے مطابق ایف آئی اے کی طرح نئی ایجنسی (این سی سی آئی اے) بھی وزارت داخلہ ہی کے ماتحت ہوگی۔ لیکن اس کے قوانین اور ایس او پیز کی تیاری میں وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کا عمل دخل برقرار رہے گا۔ ماہرین کے مطابق اس نئی ایجنسی کے مقاصد اسی وقت حاصل کیے جاسکیں گے، جب پیکا قوانین اور پیکا رولز کے تحت قابلیت اور اہلیت پر پورا اترنے والے افسران ہی ایجنسی میں تعینات کیے جائیں۔ اگر ماضی کی طرح پولیس اور ایف آئی اے سے ہی آئی ٹی اور کمپیوٹر سائنس سے نابلد افسران کی تعیناتی جاری رہی تو پھر ایجنسی کے قیام کے ثمرات اس انداز میں نہیں حاصل سکیں گے، جس طرح اس وقت ریاستی اداروں کو مطلوب ہیں۔
’’امت‘‘ کو اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع نے بتایا کہ آئندہ دو سے تین ہفتوں میں نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی کیلئے نیا ڈائریکٹر جنرل منتخب کر لیا جائے گا۔ جس کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ، ایف آئی اے اسلام آباد ہیڈ کوارٹرز سے باقاعدہ طور پر ختم کرکے نیشنل پولیس فائونڈیشن اسلام آباد کی عمارت میں پہلے سے سائبر کرائم ونگ کے پاس موجود دفتر میں منتقل کردیا جائے گا۔ تاہم سائبر کرائم ونگ کے صوبائی دفاتر اور مختلف شہروں میں قائم تھانے اگلے بجٹ تک بدستور انہی مقامات پر رہیں گے، جہاں ابھی موجود ہیں۔
اسی طرح اس وقت سائبر کرائم ونگ میں ایف آئی اے اور پولیس سے ڈیپوٹیشن پر آئے تفتیشی افسران اگلے ایک برس تک نئی سائبر کرائم ایجنسی میں کام کرتے رہیں گے۔ جس کے بعد انہیں واپس جانا ہوگا اور اس دوران سائبر کرائمز تحقیقاتی ایجنسی کیلئے علیحدہ سے بھرتیاں کرکے اس کی افرادی قوت اور وسائل پورے کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ایجنسی کیلئے فارنسک اور جدید تفتیش کے نئے آلات کی خریداری اور نئے دفاتر کے قیام کا مرحلہ بھی مکمل کرلیا جائے گا۔ اس کیلئے آئندہ بجٹ میں فنڈز مختص کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت ہیڈ کوارٹرز سمیت دیگر سائبر کرائمز دفاتر میں ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے بجٹ سے خریدی گئی گاڑیوں، آلات اور دیگر سامان کی فہرستیں بنائی جا رہی ہیں۔ تاکہ انہیں ایف آئی اے ڈائریکٹوریٹ جنرل سے لے کر نئی ایجنسی این سی سی آئی اے کو جلد از جلد فراہم کردیا جائے۔
دو روز قبل اس ضمن میں حکومت کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق سائبر کرائمز کی روک تھام کیلئے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے نام سے نیا ادارہ بنا دیا گیا۔ نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ این سی سی آئی اے کا تحقیقاتی ادارہ ایکٹ کی شق 29 کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ این سی سی آئی اے ایکٹ کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرے گی۔ نوٹی فکیشن کے مطابق ایف آئی اے اس ایکٹ کے تحت نامزد تحقیقاتی ادارے کے امور ادا کرنا روک دے گی۔ تمام اہلکار، کیسز، انکوائریز، تحقیقات ایف آئی اے سے این سی سی آئی اے کو منتقل ہوں گے۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ حکومت این سی سی آئی اے کے ڈی جی کا تقرر دو سال کیلئے کرے گی۔ ڈائریکٹر جنرل این سی سی آئی اے پولیس آرڈر 2002ء کے تحت آئی جی کے اختیارات استعمال کریں گے۔ این سی سی آئی کے معاملات وزارت داخلہ ڈیل کرے گی۔ این سی سی آئی اے بین الاقوامی تعاون کے حوالے سے نامزد ادارہ ہوگا۔ نوٹی فکیشن کے مطابق سائبرکرائمز کے حوالے سے ہونے والے تمام جرائم، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کو بھیجے جائیں گے۔ سائبر کرائمز سے متعلق تمام مقدمات کے اندراج اور پراسیکیوشن این سی سی آئی اے خود کرے گی۔ نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ این سی سی آئی اے کے اپنے تھانے ہوں گے۔ افسران کو سائبر کرائمز سے متعلق خصوصی تربیت دی جائے گی۔ ملک بھرمیں سوشل میڈیا اور ایپس سے متعلق تمام معاملات این سی سی آئی اے دیکھے گی۔
اسلام آباد میں موجود اہم ذرائع نے بتایا ہے کہ سائبر کرائم ونگ کے تحت اس وقت ملک بھر میں 20 سے زائد تھانے اور زونل دفاتر قائم ہیں، جو ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کے ماتحت کام کر رہے ہیں۔ تاہم گزشتہ دو برس سے سائبر کرائمز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے نتیجے میں جو صورت حال سامنے آئی۔ اس میں یہ دیکھا گیا کہ ایف آئی اے کے ماتحت سائبر کرائم سرکلز کی جانب سے کئی ایسی انکوائریاں کی گئیں، جن میں زیر تفتیش افراد کو جب نوٹس ارسال کیے گئے تو انہوں نے مختلف عدالتوں سے رجوع کیا۔ چوں کہ ان انکوائریوں کیلئے ایف آئی اے کے انکوائریز اینڈ انویسٹی گیشن رولز کے ساتھ پاکستان الیکٹرانک کرائم انویسٹی گیشن رولز کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔
اس لئے عدالتوں کی جانب سے ایسے کئی کیسوں میں ایف آئی اے حکام بشمول ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور زونل ڈائریکٹرز کو نوٹس بھیجے گئے۔ جب کہ کئی ایسی انکوائریوں کو روکنا بھی پڑا۔ ذرائع کے بقول، ان میں سے کئی کیسز اور اسکینڈلز میں عدالتی اور قانونی پیچیدگیاں سامنے آنے کے بعد ایسی رپورٹیں وزارت داخلہ اور انفارمیشن منسٹری کو موصول ہوئیں جن میں موجودہ صورت حال میں سائبر کرائمز کی تفتیش کیلئے ایک علیحدہ ایجنسی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ ایسی تحقیقاتی ایجنسی جس کے اپنے قوانین اور اپنے انویسٹی گیشن اینڈ انکوائریز رولز ہوں۔ اس کے ساتھ ہی چھاپا مار کارروائی سے لے کر گرفتاریوں تک کی اپنی ایس او پیز ہوں۔
اہم ذرائع کے بقول اس حوالے سے متذکرہ دونوں وزارتوں کی مشاورت کے بعد 5 ماہ قبل اس کی سفارشات کابینہ کو بھیجی گئیں۔ جس کی بنیاد پر رواں برس جنوری میں کابینہ سے اس کی منظوری دی گئی۔ تاہم اس کا باقاعدہ نوٹی فکیشن جاری ہونے میں 5 ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ کیونکہ نئی ایجنسی کیلئے سالانہ 6 سے 7 ارب کے بجٹ کی سفارشات تھیں جس کو اس مشکل معاشی صورت حال میں مہیا کرنا مشکل تھا۔ لیکن وقت کی ضرورت کے سبب یہ کام مکمل کرکے اب اسے نوٹیفائی کردیا گیا ہے۔