نواز طاہر
پنجاب حکومت کی طرف سے گندم کی خریداری پالیسی تبدیل نہ کرنے کے واضح اعلان کے بعد نہ صرف صوبے میں لاکھوں ٹن گندم کاشتکار کیلیے ’مٹی‘ ہوجائے گی۔ بلکہ انہیں شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ جبکہ اگلے برس سے گندم کے علاوہ آٹا بھی کمیاب اور مہنگا ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ کاشتکاروں نے حکومت کو دس روز کا الٹی میٹم دیتے ہوئے اگلے سال گندم نہ بونے کا اعلان کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے جہاں کاشتکار کو بھاری نقصان ہوگا۔ وہیں ابتدائی طور پر پنجاب حکومت کو کچھ سرکاری فائدہ پہنچے گا۔ البتہ ملز مالکان اور مڈل مین اربوں روپے نفع کماکر عام صارفین کیلئے روٹی مزید مشکل بنادیں گے۔
واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے چھوٹے کاشتکار سے گندم خریدنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن یہ خریداری اس کے مقرر کردہ تین ہزار نو سو روپے کے نرخ کے بجائے ڈھائی ہزار روپے تک فروخت ہوئی اور خریداری مراکز بھی فعال نہ ہوسکے۔ جس پر آڑتھی اور مڈل مین نے اس میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے یہی گندم مجبور کاشتکار سے خرید لی۔ جبکہ کاشتکار تنظیمیں اس پر واویلا کرتے رہے جو تاحال جاری ہے۔ اب انہوں نے حکومتی فیصلے مسترد کرتے ہوئے اسے آخری موقع دیا ہے۔ اگر حکومت اپنی پالیسی پر قائم رہی تو اکیس مئی کو ملک بھر میں یوم کسان منایا جائے گا۔ جس میں کاشتکاروں کا مرکزی احتجاج اور اجتماع لاہور کے مال روڈ پر ہوگا۔ جبکہ دوسرے صوبوں میں بھی ہر ضلع اور بڑے شہروں میں اجتماعات ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ کو بتایا گیا ہے کہ اس وقت اگر محکمہ خوراک گندم خریدے گا تو اسے پانچ ارب روپے کا بینکوں سے سود پر قرض لینا پڑے گا۔ جبکہ سرکاری گوداموں میں پہلے ہی وافر گندم موجود ہے اور نجی شعبے نے بھی گندم خرید رکھی ہے۔ ذرائع کا بقول حکومت کا خیال ہے کہ کاشتکار اپنا احتجاج زیادہ دیر برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ ابھی گندم کی کٹائی کے ساتھ ہی کچھ علاقوں میں چاول کی کاشت کا ابتدائی کام شروع ہوگیا ہے اور پھر کاشتکار اپنے علاقوں میں کپاس کی کاشت میں بھی مصروف ہوجائیں گے۔ یاد رہے کہ پنجاب میں اس برس پیدا ہونے والی دو کروڑ بانوے لاکھ گندم میں سے کچھ حصہ نجی شعبہ خرید چکا ہے اور کچھ آڑھتیوں نے لے لی ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومتی تعلقات رکھنے والے سرمایہ کاروں کے گٹھ جوڑ سے اس امر کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے کہ اگر کاشتکار اگلے برس گندم نہ بونے کا اعلان کرتا ہے تو اس پر بلیک میل ہونے کی ضرورت نہیں۔ نجی شعبہ یہ ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ جس سے حکومتی اخراجات میں کمی آئے گی۔ ذرائع کے مطابق کاشتکاروں کی گندم بونے کی حوصلہ شکنی ایک خاص مقصد کیلئے بھی کی جارہی کہ کارپوریٹ فارمنگ سے اگلے سال پیدا ہونے والی گندم کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔
دوسری جانب اس وقت کاشتکار کے پاس پڑی گندم کی خریداری میں بھی درجہ بندی کی گئی ہے۔ جبکہ نجی شعبے خریداری میں تیزی لا رہے ہیں۔ جس سے گندم کے کم ترین ریٹ میں تھوڑی بہتری آئی ہے اور نرخ تین ہزار سے تین ہزار دو سو روپے تک پہنچ گیا ہے۔ لیکن زیادہ نمی والی گندم انتیس سو رپے میں بھی فروخت ہورہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جس گندم کو نم زدہ کہا جارہا ہے۔ اسے صرف ایک سے دو دن کی دھوپ درکار ہے۔ لیکن کاشتکار کے پاس اس کیلئے بھی وسائل نہیں۔ نمی والی گندم کا مسئلہ زیادہ تر وسطی پنجاب میں (موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی بے موسمی) بارشوں کے باعث پیش آیا ہے۔ جس سے فصلوں کی کٹائی بھی متاثر ہوئی اور پیداوار پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔
گندم کی خریداری پالیسی پر قائم رہنے اور کاشتکاروں کے مسائل حل کرنے میں عدم دلچسپی پر کاشتکاروں کا احتجاج بھی جاری ہے۔
ملک کی سبھی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کاشتکار اس میں شامل ہیں۔ گزشتہ روز نو مئی کو کاشتکار تنظیموں کا ایک مشترکہ اجلاس بھی ہوا ہے۔ جس میں ایک بار پھر حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ کاشتکار سے مقرر کردہ سرکاری نرخ پرگندم کی خریداری یقینی بنائی جائے۔ پنجاب، سندھ، خیبرپختون اور بلوچستان سمیت ملک کے تمام نمائندہ کسانوں نے متفقہ طور پر یہ مطالبہ بھی کیا کہ گندم اسکینڈل میں ملوث بیورکریٹسں، امپورٹرز، سابق کیئر ٹیکر وزیراعظم انوارالحق اور پنجاب کے سابق نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کو بھی گرفتار کیا جائے۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کی تجویز پر اکیس مئی کو ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے اور مطالبات نہ ماننے تک احتجاجی تحریک کو مزید تیز کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس مشاورتی اجلاس میں جنوبی پنجاب میں اگلے سال موجودہ شرح سے گندم کاشت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کسان اتحاد پاکستان کے صدر ذوالفقار اعوان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’کاشتکار اور غریب تو اچار اور دودھ کے ساتھ روٹی کھا لے گا۔ لیکن اشرافیہ بیف اور مٹن کے ساتھ کیا کھائے گی؟ اس جبکہ غیر معیاری گندم کی امپورٹ سے ملک پر بھی اثرات پڑیں گے‘‘۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’’پنجاب حکومت گندم کی خریداری کے حوالے سے کلی طور پر غلط بیانی کر رہی ہے۔ سرکاری طور پر کسی کاشتکار سے گندم نہیں خریدی گئی۔ ہمارے ساتھ حکومت نے جو جو وعدے کیے تھے۔ وہ سب تاحال جھوٹے ثابت ہوئے ہیں‘‘۔ کسان رابطہ کمیٹی کے سیکریٹری فاروق طارق اور دیگر رہنمائوں نے کہا کہ کسان اتحاد کی پہلی ریلی کو جس طرح طاقت سے روکا گیا تھا۔ اب نہیں روکا جاسکے گا اور ملک بھر میں کسان احتجاج ہوگا۔ جس میں سول سوسائٹی اور عام شہری بھی شریک ہوں گے۔ اس معاملے پر تمام کسان تنظیمیں متحد ہیں۔