آنے والے دنوں میں مختلف علاقوں میں صبح، رات میں بونداباندی جاری رہ سکتی ہے، فائل فوٹو
آنے والے دنوں میں مختلف علاقوں میں صبح، رات میں بونداباندی جاری رہ سکتی ہے، فائل فوٹو

کراچی میں گرمی، مئی اور جون کے مہینے کٹھن

اقبال اعوان:

کراچی میں مئی اور جون کے مہینے خاصے کٹھن ہوں گے۔ شدید گرمی کی لہر سے صورتحال خطرناک ہو سکتی ہے۔ جبکہ بجلی اور پانی کا بحران بھی اہالیان کراچی کیلئے مزید پریشانی کا باعث بنے گا۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی میں نمی کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ سمندری ہوا بند ہوئی یا اس کا رخ تبدیل ہوا، تو کراچی پر سورج آگ برسائے گا اور 2015ء والی ہیٹ ویو کی خطرناک لہر آ سکتی ہے۔

دوسری جانب سرکاری سطح پر ہیٹ اسٹروک سے بچائو یا طبی امداد فراہم کرنے کے حوالے سے اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ شہر کراچی اس بار شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ دوپہر گیارہ بجے سے سہ پہر پانچ بجے تک تپش بڑھ جاتی ہے اور درجہ حرارت 38 ڈگری تک جارہا ہے۔ تاہم نمی کا تناسب پچاس ساٹھ فیصد تک ہونے پر حبس محسوس ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں شہریوں کو بلاضرورت گھروں سے نکلنے سے منع کیا گیا ہے۔ تاہم مزدور اور محنت کشوں کو روزگار کمانے کیلئے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ زیادہ متاثر بھی ہو رہے ہیں۔

محکمہ موسمیات آگاہی دے چکا ہے کہ مئی اور جون گرم ترین مہینے رہیں گے اور ہیٹ اسٹروک کے خطرات منڈلاتے رہیں گے۔ جونہی ہوا کا رخ بدلا اور سمندری ہوائیں بند ہوئیں۔ شہر تندور بن جائے گا۔ خاص طور پر دن کے 6 گھنٹے آگ برسائیں گے۔ ایک جانب بلوچستان، اپر سندھ، پنجاب اور گلگت میں بارشیں ہورہی ہیں اور ایران افغانستان سے اسپیل آرہے ہیں۔ لیکن کراچی میں بارش کا کوئی امکان نہیں۔ مون سون جولائی سے ستمبر تک ہوگا۔ اس دوران خلیج بنگال سے بارشوں کے سسٹمز کراچی آتے ہیں تو بارشیں ہوتی ہیں۔

ادھر کراچی میں شدید گرمی سے بچائو کے اقدامات میں سندھ حکومت اور دیگر ادارے خاموش ہیں۔ جبکہ شدید گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی زیادہ ہو رہی ہے۔ شہر کے کئی علاقوں میں 14 سے 16 گھنٹے تک بھی لوڈ شیڈنگ ہے۔ رات کو شدید حبس ہوتا ہے۔ بجلی نہ ہونے پر لوگ فٹ ہاتھ، سڑک کنارے، میدانوں اور پارکوں میں راتیں گزار رہے ہیں۔ غریب طبقہ پنکھے چلانے کیلئے یو پی ایس، بیٹری یا جنریٹر بھی نہیں خرید سکتا۔

گرمی کی شدت کم کرنے کیلیے بار بار نہانا بھی مشکل ہے کہ کراچی میں پانی کا بھی بحران ہے۔ لوگ پلاسٹک کی بوتلوں، ڈبوں میں پینے کا پانی خریدتے ہیں اور بورنگ والے پانی سے نہاتے یا دیگر کام کرتے ہیں۔ گرمی میں الرجی زیادہ ہوتی ہے اور جلد پر گرمی دانوں کی بھرمار ہو جاتی ہے اور بورنگ کے پانی سے جلد کی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ دوسری جانب گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ رات ساڑھے 9 بجے سے صبح 6 بجے تک ہر علاقے میں بند رہتی ہے اور رات کو جنریٹر نہیں چلا سکتے۔ مہنگائی اور دیگر مسائل میں گھرے شہریوں کا برا حال ہے۔

ادھر بڑے بڑے دعوے کیے جاتے رہے کہ اسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک سینٹر قائم کیے جارہے ہیں۔ ایمرجنسی مراکز قائم کیے جائیں گے۔ لیکن انتظامیہ خاموش ہے۔ جبکہ قدم قدم پر رفاہی اداروں کے چورنگیوں، فٹ پاتھوں، سڑک کنارے اور بازاروں کے آگے سینٹرز میں بھی کوئی انتظام نہیں۔ محکمہ موسمیات کراچی میں 2015ء والی صورتحال ہونے کا خدشہ ظاہر کرچکا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو جانی نقصان بھی ہو سکتا تھا۔ حکومتی دعوے بڑے بڑے ہوتے ہیں۔ تاہم شہر میں بارشوں میں تباہی کے باوجود نالے صاف کرانے، کچرا اٹھانے، سیوریج لائنیں ٹھیک کرانے، بند گٹر کھلوانے کا کوئی بھی کام نظر نہیں آرہا۔

دن بھر شدید گرمی میں کام دھندے پر جانے والے لوگ بیمار ہوکر نجی ڈاکٹروں کے پاس جاکر بھاری خرچہ کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ غریب طبقہ سرکاری اسپتالوں کے چکر کاٹ کاٹ کر ہلکان ہے۔ محکمہ موسمیات کے چیف میٹ آفیسر سردار سرفراز نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سرکاری اداروں کو آگاہ کیا جا چکا ہے کہ مئی اس سال کا گرم ترین مہینہ ہوگا اور جون مزید گرم ہو سکتا ہے۔ لہذا شدید گرمی میں شہریوں کو ریلیف دینے اور ہیٹ اسٹروک کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں۔