امت رپورٹ:
پچھلے چند روز سے سوشل میڈیا پر ایسی خبریں چل رہی ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ، افغانستان کے حوالے کرنے والاہے۔ تاہم ’’امت‘‘ کے مصدقہ ذرائع کے مطابق یہ محض افواہ ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ بدقسمتی سے بے لگام سوشل میڈیا کی ہر جھوٹی پوسٹ یا معلومات پر یقین کرنے والوں کی کمی نہیں۔ یہی ہوا اور اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی بغیر تصدیق کیے اس خبر پر ایمان لے آئے۔ جس میں ایک فیصد بھی سچائی نہیں۔ سوشل میڈیا پر اب تک اس ایشو پر بحث چل رہی ہے۔ لیکن کسی نے یہ زحمت نہیں کی کہ ڈاکٹر فوزیہ یا عافیہ کے وکیل کلائیو اسمتھ کے آفیشل سوشل میڈیا اکائونٹ پر چلے جاتے۔
پوری قوم ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی منتظر ہے اور چاہتی ہے کہ وہ جلد امریکی عقوبت خانے سے رہا ہوں۔ خاص طور پر ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ لیکن اس حوالے سے جھوٹی خبر یقینا ان کے لئے باعث تکلیف ہے۔ اپنے اس دکھ کا اظہار ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اپنے ٹویٹر (ایکس) اکائونٹ پر بھی کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’عافیہ کے اہل خانہ اور سپورٹرز ان کی جیل سے رہائی کی خبر پر بہت خوش ہوں گے۔ جہاں انہوں نے ناقابل تصور اذیت اور بدسلوکی برداشت کی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ایسا ایک لمحہ ایک طویل اور مشکل جدوجہد کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کا نشان ہوگا اور ہم اس فتح کو خوشی کے آنسوئوں کے ساتھ منائیں گے۔
وکلا سمیت وہ تمام لوگ جو عافیہ کی رہائی کے لئے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ ان کے لئے بھی یہ لمحہ باعث سکون ہوگا۔ عافیہ کی رہائی یقینا ناانصافی سے دوچار دنیا میں امید کی کرن ثابت ہوگی۔ جس نے بھی عافیہ کی رہائی میں کردار ادا کیا۔ اسے ہیرو کے طور پر سراہا جائے گا۔ ان کے نام انصاف کے چیمپئن کے طور پر تاریخ میں لکھے جائیں گے۔ لیکن اگر، جیسا کہ سچ لگتا ہے، یہ خبر جھوٹی ہے تو یہ عافیہ کے خاندان اور سپورٹرز کے لئے ایک تکلیف دہ دھچکا ہے۔ جو ایک طویل عرصے سے امید پر قائم ہیں۔
اسے قانونی ٹیم کی کوششوں اور دو برادر ممالک کے تعلقات کو سبوتاژ کرنے کی مذموم سازش کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے ظلم سے بچائے اور وہ ہمیں مصیبتوں میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ جلد ہمیں عافیہ سے دوبارہ ملنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اب اس طرف آتے ہیں کہ عافیہ کی امریکہ کی جانب سے افغانستان حوالگی کے امکان سے متعلق جھوٹی خبریں کیوں چلیں۔ ’’امت‘‘ کی تحقیق کے مطابق اس کا تعلق ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو اسمتھ کے دورہ افغانستان سے جڑا ہے۔ جو پچھلے دنوں افغانستان میں تھے۔ جہاں انہوں نے پریس کانفرنس بھی کی۔ ان کے ہمراہ گوانتاناموبے سے رہائی پانے والے پاکستانی نژاد برطانوی شہری معظم بیگ بھی تھے۔ دراصل انسانی حقوق کے عالمی شہرت یافتہ امریکی وکیل افغانستان میں وہ تمام شہادتیں جمع کر رہے ہیں۔ جو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں کلائیو اسمتھ کا افغانستان کا یہ تیسرا دورہ تھا۔ انہوں نے افغانستان کی بدنام زمانہ بگرام جیل سے بھی یہ شواہد اکٹھے کیے ہیں کہ وہاں ڈاکٹر عافیہ کو رکھا گیا تھا۔
اس معاملے سے آگاہ ذرائع کے مطابق اگر یہ ثابت ہوجائے کہ امریکی فوجیوں نے ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ لانے سے پہلے اپنے زیر کنٹرول بگرام جیل میں ایک عرصے تک قید رکھا۔ جہاں انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا تو عافیہ کے پورے مقدمے پر اس کا اثر پڑے گا۔ کیونکہ امریکی حکام اس بات سے منکر ہیں کہ کئی برس تک عافیہ افغانستان میں بھی ان کی قید میں رہی۔ اس کے علاوہ بھی کلائیو اسمتھ دیگر اہم شواہد جمع کر رہے ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں اس درزی سے بھی ملاقات کی ہے۔ جس نے ڈاکٹر عافیہ کی جان بچانے میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ یہ درزی اس وقت نوجوان تھا اور اس نے بھی تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو افغان پولیس سے امریکہ نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا اور بعد ازاں انہیں امریکی فوجیوں کے زیر کنٹرول بگرام ایئربیس کے عقوبت خانے منتقل کردیا گیا۔
قصہ یہ ہے کہ جب افغانستان میں پولیس کو ایک نامعلوم کال موصول ہوئی کہ ایک خاتون خود کش بمبار فلاں مقام پر کھڑی ہے تو پولیس وہاں پہنچ گئی تھی اور ٹھیک اس لمحے جب وہ ڈاکٹر عافیہ کو گولی مارنے والی تھی تو مذکورہ افغان درزی دونوں کے درمیان میں آگیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ یہ خود کش بمبار نہیں بلکہ ایک مظلوم عورت ہے۔ یوں ڈاکٹر عافیہ کی جان بچ گئی تھی اور پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا تھا۔ بصورت دیگر وہ اس خوف سے قریب نہیں آرہی تھیں کہ کہیں خود کش دھماکہ نہ ہو جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی افغان حکومت کو ممکنہ حوالگی سے متعلق گمراہ کن خبریں بھی سوشل میڈیا پر اسی تناظر میں چلیں کہ ان کے وکیل افغانستان میں اہم شواہد جمع کرنے میں مصروف ہیں اور انہوں نے وہاں چند ایونٹس کی تصاویر بھی اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر شیئر کیں۔ جس میں معظم بیگ اور افغان درزی بھی ان کے ہمراہ موجود ہیں۔ واضح رہے کہ کلائیو اسمتھ کی طرح معظم بیگ کا بھی افغانستان کا یہ تیسرا دورہ ہے۔ وہ ہر بار ان کے ہمراہ ہوتے ہیں اور ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں انتھک کام کر رہے ہیں۔
پاکستانی نژاد برطانوی شہری معظم بیگ پر شام میں ہونے والی جنگ میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ وہ دو ہزار ایک میں اپنے خاندان کے ہمراہ افغانستان چلے گئے تھے اور پھر افغانستان میں امریکی حملے کے بعد وہ پاکستان منتقل ہوگئے تھے۔ انہیں جنوری دو ہزار دو میں اسلام آباد سے گرفتار کرکے بگرام جیل میں ایک سال تک رکھا گیا تھا۔ بعد ازاں گوانتاناموبے منتقل کر دیا گیا تھا۔ تاہم بے گناہ ثابت ہونے پر معظم بیگ کو دو ہزار پانچ میں گوانتاناموبے سے رہا کردیا گیا تھا۔ جب وہ واپس برطانیہ پہنچے تو انہیں ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا۔ انہوں نے قانونی جنگ لڑی اور دو ہزار چودہ میں برطانوی کرائون پراسیکیوشن سروس نے معظم بیگ پر دہشت گردی کے سات الزامات واپس لے لئے تھے۔
ڈاکٹر عافیہ کی افغانستان کو ممکنہ حوالگی سے متعلق سوشل میڈیا پر چلنے والی خبر کے حوالے سے جب عافیہ موومنٹ کے کنوینر محمد ایوب سے رابطہ کیا گیا تو ان کاکہنا تھا ’’ہمارے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ لیکن ہماری خواہش ہے کہ ڈاکٹر عافیہ جلد از جلد رہا ہوجائیں‘‘۔