نواز طاہر:
لین دین کے تنازعہ پر عام آدمی کی تھانے میں داد رسی سے انکار کر کے سول کورٹ کا راستہ دکھانے والے پولیس سسٹم میں بڑی رقم کے لین دین اور مبینہ ’مک مکا‘ نے ایک پولیس اہلکار کی جان لے لی تو دوسرا شدید زخمی ہوگیا۔ اس دوران ایک تاجر رہنما بھی پولیس کے ساتھ مبینہ مقابلے میں ڈاکو قرار دے کر مارا گیا۔ لیکن یہ پولیس مقابلہ جدید مواصلاتی نظام نے بے نقاب کردیا۔ لینے دینے’ والی پارٹیاں‘ زندہ ہیں۔ جبکہ لین دین سے باہر والے دو افراد سپردِ خاک کر دیئے گئے۔ جن کی اتوار کو عارف والا اور لاہور میں قل خوانی ہوئی۔ جبکہ اس تنازع اور ہلاکتوں کے تانے بانے ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے کاروبار سے جڑے ہیں۔
یاد رہے کہ لاہور کے تھانہ نواب ٹائون کی حدود میں واقع جدید رہائشی اسکیم میں مبینہ پولیس مقابلے میں ایک فیصل بٹ ڈاکو مارا گیا تھا۔ جبکہ ایک کانسٹیبل خلیل اور ایلیٹ فورس کا اے ایس آئی غفور زخمی ہوگیا تھا۔ لیکن سی سی ٹی وی فوٹیج اور ٹھواس شواہد نے اس پولیس مقابلے کو بے نقاب کردیا تھا۔ جس سے پولیس کے اس موقف کی نفی ہوگئی کہ مارا جانے والا ڈاکو نہیں، بلکہ مقتول فیصل بٹ لاہور کی مچھلی منڈی کے تاجروں کی تنظیم کا جنرل سیکریٹری تھا۔ مگر پولیس تاحال اس مبینہ مقابلے کو پولیس مقابلہ قراردے رہی ہے۔
حالانکہ لاہور پولیس کے ایک اعلیٰ افسر آف دی ریکارڈ پہلے ہی تسلیم کرچکے تھے کہ فیصل غلطی سے مارا گیا ہے، اور جن پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی ہے وہ بھی ڈاکو سمجھ کرہی کی گئی تھی۔ جبکہ وہ پولیس یونیفارم میں نہیں تھے۔ اس کی تصدیق لاہور کے جناح اسپتال میں اس وقت ہوئی جب پولیس نے فیصل بٹ کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے کانسٹیبل خلیل کو بعد از موت یونیفارم پہنائی۔ جس پر اسے لگنے والی گولی کا کوئی سراغ نہیں تھا۔
اسی طرح فیصل بٹ کو بھی بعد میں پولیس نے گھر کے اندر گھس کر اس کے اہلِ خانہ کے سامنے گولیاں ماریں۔ یہ واقعہ نصف شب ساڑھے تین بجے پیش آیا اور پولیس نے اسے چھپانے کی کوشش کی۔ جو کارگر ثابت نہ ہوسکی تو مبینہ پولیس مقابلہ قرار دیدیا گیا۔ اس کی تفصیل یہ سامنے آئی ہے کہ عارف والا سے پولیس کی ایک چھاپہ مار پارٹی لاہور کے تھانہ نواب ٹائون کی حدود میں گئی لیکن متعلقہ تھانے کو مطلع نہ کیا اور مبینہ طور پر مطلوب ملزم یوسف کی گرفتاری کیلئے دیواریں پھیلانگ کر داخل ہوئی اور ڈاکو سمجھ کر ان دونوںاہلکاروں پر فائیرنگ کردی گئی جب ان کا ایک ساتھی جاں بحق اور دوسرا زخمی ہوگیا تو معاملہ سنگین ہونے پر پولیس کے اعلیٰ حکام کے علم میں لایا گیا اور ساتھ ہی کارروائی کرکے فیصل بٹ کو بھی موت کے گھاٹ اتاردیا گیا اور اسی دوران پورے علاقے کا محاصرہ کیا گیا جس دوران لاہور مقامی پولیس کی نفری بھی پہنچ چکی تھی۔
اس کے بعد فیصل بٹ کی لاش ضروری قانونی کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کردی گئی اور خلیل کی لاش عارف والا پولیس کے سپرد کردی گئی جسے مقامی قبرستان میں اور فیصل بٹ کو لاہور میں سپرد خاک کردیا گیا۔ اتوار کو ایک ہی روز دونوں مقتولین کی قل خوانی ہوئی۔ مقتول سپاہی خلیل کا تعلق عارف والا شہر کے نواحی چک انتالیس سے تھا جو عارف والا کی جدیدرہائشی اسکیم غلام محمد ٹائون میں رہائش منتقل کرچکا تھا اور تھانہ صدر عارف والا میں تعینات تھا جس نے بیوہ، ایک کسن بیٹی اور کمسن بیٹا سوگوار چھوڑے ہیں۔ قل میں شریک افراد نے بتایا کہ کانسٹیبل خلیل کو ایک گولی ٹانگ پر لگی اور ایک گولی سینے میں لگی۔
ان کے مطابق پولیس نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس کے مطابق نواب ٹائون میںجس وقت یہ اہلکار دیوار پر چڑھا تو اسے برسٹ مارا گیا تھا۔ جس کی گولیاں خلیل اور غفور کو لگیں تو پیچھے کچھ فاصلے پر موجود پولیس پارٹی اور اسے لانے والا بھی موجود تھا۔ تاہم یہ تصدیق نہیں کی جارہی کہ یہ شخص اس مقدمے کا مدعی سلیم عباس (رینالہ خورد) خود تھا۔ یہ مقدمہ سالونٹ آئل کے ٹینکر کی چوری کے الزام میں تھانہ عارف والا میں سات مئی کو درج کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ ایک کروڑ تیرہ لاکھ چالیس ہزار روپے مالیت کا سالونٹ آئل سے بھرا ٹینکرعارف والا میں نو مارچ کو اس کی آنکھوں کے سامنے چھینا گیا تھا اور یہ معاملہ پنچایت میں بھی حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ سطور لکھے جانے تک پولیس بحثیت ڈپارٹمنٹ اپنے مبینہ پولیس مقابلے کے موقف پر قائم ہے جبکہ فیصل بٹ کے لواحقین اس کی عدالتی انکوائری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسی دوران عارف والا اور نواحی علاقوں سے تصدیق کی جارہی ہے کہ معاملہ ایرانی تیل اور لین دین کا تھا۔ جبکہ یہ علاقے ایرانی تیل کی اسمگلنگ کا بڑا اڈہ ہے اور اس کے بڑے طاقتور آپریٹر بھی اسی علاقے میں ہیں جن کے پولیس اور انتظامیہ میں گہرے مراسم ہیں۔