امت رپورٹ:
نگراں حکومت کی کابینہ کمیٹی کی رپورٹ میں بھی پی ٹی آئی کے تقریباً ان تمام رہنمائوں کو 9 مئی کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ جن کو پہلے ہی ان واقعات میں مختلف کیسز کا سامنا تھا۔ تاہم بیشتر کو عدالتوں سے ریلیف ملا اور وہ اب دندناتے پھر رہے ہیں۔ کئی جیل میں ہیں اور متعدد پارلیمنٹ کا حصہ بن چکے ہیں۔
سانحہ 9 مئی کی تحقیقات کے لیے نگراں دور میں قائم کابینہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ان واقعات میں پی ٹی آئی براہ راست ملوث تھی۔ منصوبہ بندی میں عمران خان کا کلیدی رول تھا۔ اور یہ ایک طے شدہ سازش تھی۔ ساتھ ہی مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے کہا گیا ہے کہ قومی مفاہمت کے علاوہ 9 مئی کے ذمہ داروں کا احتساب ہونا ضروری ہے۔ ملین ڈالر کا سوال ہے کہ کیا موجودہ حکومت نگراں کابینہ کمیٹی کی ان سفارشات پر عمل کرے گی۔
چھبیس صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طے شدہ سازش کی منصوبہ بندی، سہولت کاری اور فوجی تنصیبات پر حملوں میں عملی طور پر حصہ لینے والوں میں دو سو تریسٹھ افراد شامل تھے۔ اہم رول ادا کرنے والوں میں حماد اظہر، فرخ حبیب، زرتاج گل، علی امین گنڈاپور، مراد سعید، علی زیدی، شاندانہ گلزار، کنول شوذب، اعجاز چوہدری، فیصل جاوید، شہریار آفریدی، یاسمین راشد، میاں عبدالرشید، جمشید احمد چیمہ، مسرت چیمہ، زبیر نیازی، حسان نیازی، عالیہ حمزہ، علیمہ خان، صداقت عباسی، واثق قیوم، انعم شیخ، عائشہ اقبال، منزہ حسن، نوشین خالد، عمر چیمہ، عمر بٹ، جہانگیر بٹ، راجہ عثمان، عاطف قریشی، مسلم خان، ذیشان ممتاز، قیصر خان، ذکی بٹ، ملک حامد، سیمیبیہ طاہر، آصف محمود، طیبہ ابراہیم، شمائلہ فیاض، اظہر میر، حسیب نقوی، جمال چیمہ، بائو اکرم، نجف شیرازی، امجد علی خان، خالد عزیز، امیر مغل، ملک عامر ڈوگر، ندیم قریشی، زین قریشی اور دیگر شامل ہیں۔
ان میں سے مراد سعید اب تک منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔ علی زیدی سیاست ترک کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ زرتاج گل عدالت سے ریلیف ملنے کے بعد اب حج کے نام پر ملک سے باہر جانا چاہتی ہیں اور انہوں نے اپنا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لیے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔ ماضی قریب کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے امکان ہے کہ ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم آجائے گا۔ فرخ حبیب پی ٹی آئی سے علیحدگی کی پریس کانفرنس کر کے بھاگ نکلے تھے۔ اب تک منظرعام پر نہیں آئے ہیں۔ علی امین گنڈا پور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا بن چکے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کو عمران خان قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر بنانا چاہتے ہیں۔ تاکہ انہیں شلٹر مل جائے۔ وائرل ویڈیو میں مشتعل مظاہرین کو جی ایچ کیو کی طرف جانے کی ہدایت دیتے نظر آنے والے شہریار آفریدی بھی جیل سے رہا ہونے کے بعد دوبارہ بڑھکیں مارتے پھر رہے ہیں۔ ملک عامر ڈوگر قومی اسمبلی کا رکن بن چکے ہیں۔ وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کے طور پر پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کے امیدوار بھی تھے۔ شاندانہ گلزار عدلیہ سے ریلیف کے بعد پھر متحرک ہیں۔ مارچ میں ایف آئی اے نے انہیں اداروں کے خلاف عوام کو اشتعال دلانے کے الزام میں طلب کیا تھا۔
حسان نیازی پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے۔ یاسمین راشد، عمر چیمہ، اعجاز چوہدری، میاں عبدالرشید اور دیگر جیل میں ہیں۔ جمشید چیمہ اور ان کی بیوی مسرت چیمہ نے اگرچہ پریس کانفرنس کر کے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی تھی۔ لیکن اب بھی دونوں میاں بیوی پی ٹی آئی کا دم بھرتے ہیں۔ حماد اظہر بیک وقت پچاس سے زائد مقدمات میں ضمانت لینے کا ریکارڈ قائم کرنے کے باوجود کھل کر منظرعام پر آنے سے گریزاں ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر وہ مسلسل اشتعال انگیزی میں مصروف ہیں۔
جیسا کہ رپورٹ میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ نگراں حکومت کی کابینہ کمیٹی تو 9 مئی کے ذمہ داران کے احتساب کی ضرورت بیان کر چکی ہے۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نگراں کابینہ کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرے گی؟ اگر پچھلے ایک برس پر نظر ڈالی جائے تو اس سلسلے میں حکومتی اقدامات مایوس کن رہے ہیں۔ دوسری جانب حکومت کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی نے 9 مئی سے متعلق اپنا فاس فلیگ آپریشن کا جھوٹا بیانیہ مضبوط کیا۔ اس جھوٹ کے خلاف حکومت کائونٹر بیانیہ دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو جھوٹ کا جواب دینے کے لیے پریس کانفرنس کرنی پڑی۔
اہم حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے ایک سے زائد مقاصد تھے۔ ایک تو 9 مئی کے حوالے سے پی ٹی آئی کے جھوٹے بیانیہ کا جواب دینا تھا اور دنیا کو دو ٹوک بتانا تھا کہ فوج اس سانحہ میں ملوث عناصر سے کسی صورت ڈیل کرنے کے موڈ میں نہیں۔ دوسرا 9 مئی کے ملزمان کو سزا دلانے میں رکاوٹ بننے والے نظام عدل کے رول کو اجاگر کرنا تھا اور ساتھ ہی حکومت سے بھی ہلکا پھلکا شکوہ تھا کہ اس سلسلے میں اب تک اس نے اپنا کردار نہیں نبھایا ہے۔ ان ذرائع کے بقول بظاہر 9 مئی کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں اور وہ محض چند بیان دینے کے علاوہ اس سارے معاملے سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے۔ جیسے یہ اس کا مسئلہ نہیں ہے۔ فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا ہے تو فوج خود اس سے نمٹے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اس تاثر کو اس لیے بھی تقویت مل رہی ہے کہ خود کو کیسز سے بچانا تھا تو نون لیگ کی اتحادی حکومت نے آتے ہی سب سے پہلا کام نیب قوانین میں ترامیم کا انجام دیا۔ حالانکہ اس سلسلے میں اس پر خاصی تنقید بھی ہوئی۔ لیکن اس نے پرواہ نہیں کی۔ اس کے برعکس 9 مئی کے ملزمان کو سزا دلانے کے لیے جو اہم عدالتی اصلاحات ضروری ہیں۔ اس میں سستی دکھائی۔ اس عمل میں رکاوٹ بننے والے نظام عدل کے غیر منصفانہ طرز عمل کو غیر موثر بنانے کا ایک ہی حل ہے کہ حکومت فوری طور پر جوڈیشل ریفارمز لاتی۔ لیکن اس معاملے میں اس نے تیزی نہیں دکھائی۔
خصوصی نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے سے حکومت کو دو تہائی اکثریت مل گئی تھی۔ یہی موقع تھا کہ وہ فوری طور پر آئینی جوڈیشل ریفارمز کر لیتی۔ لیکن تاخیر کی گئی۔ حتیٰ کہ پی ٹی آئی نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر کے ریلیف لے لیا۔ یوں حکومت دو تہائی اکثریت کھو بیٹھی اور اب جب تک خصوصی نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ نہیں آجاتا یہ معاملہ لٹکا رہے گا۔