عمران خان کی وکلا کی ان سے ملاقات کرائی جائے، فائل فوٹو
عمران خان کی وکلا کی ان سے ملاقات کرائی جائے، فائل فوٹو

عمران خان کے ارمان دل میں رہ گئے

امت رپورٹ:
عمران خان سپریم کورٹ میں وڈیو لنک کے ذریعے ’’گرما دینے والے‘‘ سیاسی خطاب کی تیاری کرکے آئے تھے۔ لیکن ان کے ارمان پورے نہیں ہوسکے۔ پی ٹی آئی کے وکلا اور ان کے حامیوں کو بھی یہی توقعات تھیں۔ لہٰذا انہیں بھی مایوسی ہوئی۔ تاہم عمران خان کی لیک تصاویر دیکھ کر انہوں نے اپنا غم غلط کرنے کی کوشش کی اور وہ ’’مرشد کے دیدار‘‘ کا ہیش ٹیگ چلاتے رہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ منظر عام پر آنے والی تصاویر نے عمران سے اڈیالہ جیل میں مل کر آنے والوں کے ان دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے۔ جس میں وہ ہر بار یہ بتاتے رہے کہ جیل میں بانی پی ٹی آئی بہت ہشاش بشاش ہیں اور پہلے سے زیادہ ہینڈ سم ہوچکے ہیں۔ یاد رہے کہ عمران خان گزشتہ برس پانچ اگست سے جیل میں ہیں اور عام لوگوں نے قریباً نو ماہ بعد ان کی تصویر دیکھی۔

جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں نیب قانون میں ترامیم سے متعلق سماعت کے دوران عمران خان کو بطور درخواست گزار ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کیا گیا تھا۔ تاہم لگ بھگ تین گھنٹے کی اس سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کو ایک لفظ بولنے کا موقع نہیں ملا اور وہ پہلو بدل بدل کر کارروائی سنتے رہے۔ بے زاری ان کے چہرے سے عیاں تھیں۔ ان کے لئے سب سے بڑی کوفت یہ تھی کہ جو کیمرہ لگایا گیا۔ اس میں صرف وہ بنچ میں موجود ججز کو ہی دیکھ سکتے تھے۔ دراصل انہیں بولنے کی اجازت نہ ملنا امتیازی سلوک نہیں تھا۔ بلکہ قانون کے مطابق اس کیس میں حکومت کے وکیل اور پھر درخواست گزاروں کے وکلا نے دلائل دینے ہیں۔

عمران خان یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ویڈیو لنک پر آتے ہی وہ اپنے یوٹیوب ولاگز کی طرح فلمی ڈائیلاگ بولنے شروع کر دیں گے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کے لئے انہیں خصوصی ٹریننگ کرائی گئی تھی اور یہ تیاری کرانے والے ان کے ایک وکیل انتظار حسین پنچوتھا تھے۔ جنہوں نے پی ٹی آئی کے دیگر وکلا کے ہمراہ بدھ کے روز اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے عمران خان کو تیاری کرانے کی تصدیق چند کورٹ رپورٹرز سے خود کی۔ حیرت انگیز طور پر ایک سینئر وکیل ہونے کے باوجود انہیں یہ ادراک نہیں تھا کہ پہلی سماعت کے موقع پر ہی عمران خان کو بولنے کی اجازت نہیں ملے گی۔ آگے جاکر ہی اس کا موقع آسکتا ہے۔ یوں عمران خان نے جو رٹا لگایا تھا وہ ضائع گیا۔

سماعت کے دوران اس وقت کمرہ عدالت میں ہلچل پیدا ہوئی جب معلوم ہوا کہ عمران خان کی تصویر لیک ہوگئی ہے۔ کسی نے اس اسکرین کی تصویر کھینچ لی تھی۔ جس پر ویڈیو لنک کے ذریعے عمران خان موجود تھے۔ کچھ دیر بعد یہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ مجموعی طور پر عمران خان کی تین تصاویر لیک ہوئیں۔

ان تصاویر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں نے ’’مرشد کا دیدار‘‘ جیسے عنوان سے ہیش ٹیگ چلائے تو مخالفین نے ’’بدصورت مرشد‘‘ کے ہیش ٹیگ بنائے۔ تاہم منظر عام پر آنے والی تصاویر سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ لگ بھگ نو ماہ کی قید کے سبب عمران خان کا وزن گرگیا ہے۔ ان کے رخسار دھنسے نظر آرہے ہیں۔ چہرے کی جھریوں میں اضافہ ہوچکا۔ جبکہ آنکھیں تقریباً بند ہیں اور چہرے پر تھکن اور مایوسی کے اثرات نمایاں ہیں۔ پپوٹوں سے ڈھکی آنکھوں کا ایک سبب یہ ہو سکتا ہے کہ غالباً انہیں جیل میں بوٹوکس انجکشن کی سہولت میسر نہیں۔

عمران خان کے ایک سابق قریبی ساتھی نے ’’امت‘‘ کو بتایا تھا کہ اکہتر سالہ عمران خان ہر دوسرے تیسرے مہینے بوٹوکس کا انجکشن ضرور لگواتے ہیں۔ اس قریبی ساتھی کے بقول آنکھوں کے گرد اور چہرے کی کھال کو چست کرنے کے لئے بوٹوکس کا انجکشن برسوں پہلے ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر مہمند نے تجویز کیا تھا۔ تب سے بلاناغہ عمران خان اس انجکشن کا استعمال کر رہے ہیں۔ ان ہی ڈاکٹر نے نیچرل ہیئر ٹرانسپلانٹ کے ذریعے عمران خان کے بال بھی لگائے تھے۔ واضح رہے کہ بوٹوکس انجکشن بڑھاپے میں آنے والی چہرے کی جھریوں کو موثر طریقے سے کم کرکے کھال کو چست کردیتے ہیں۔ یہ پلاسٹک سرجری کے بغیر ایک غیر جراحی کاسمیٹک طریقہ ہے۔

ادھر سپریم کورٹ انتظامیہ نے بانی پی ٹی آئی کی تصاویر وائرل ہونے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ تاہم جمعرات کی شام اس رپورٹ کے فائل ہونے تک اصل ذمہ دار کا تعین نہیں ہوسکا تھا۔ سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے ذمہ دار کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ تصاویر کورٹ روم قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لی گئیں۔

قبل ازیں پی ٹی آئی کے رہنما شوکت بسرا نے بعض صحافیوں کو آف دی ریکارڈ کہا تھا کہ یہ تصاویر انہوں نے لیک کی ہیں۔ تاہم جب انہیں معلوم ہوا کہ اس معاملے پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں تو وہ اپنے اس دعوے سے مکر گئے اور انہوں نے کہا کہ وہ خود ایک وکیل ہیں۔ لہٰذا کورٹ رولز کی خلاف ورزی کیسے کرسکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ تصاویر لیک کرنے والوں میں عدالتی عملہ ملوث ہوسکتا ہے ۔