نواز طاہر:
دبئی میں پاکستانی اشرافیہ کی جائیدادیں سامنے آنے کے بعد دبئی لیکس کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا گیا ہے اور اس ضمن میں تحقیقات وفاقی ادارے (ایف آئی اے)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور قومی احتساب بیورو(نیب) سے کرانے کی درخواست دی گئی ہے۔
درخواست مقامی شہری مشکور حسین نے قانون دان ندیم سرور ملک کے توسط سے دائر کی ہے۔ جس میں انہی اداروں اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے اور عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی ہے کہ ان اداروں کے ذریعے دبئی میں اثاثوں کی قانونی حیثیت کی تحقیقات کروانے کا حکم جاری کیا جائے اور غیر قانونی پراپرٹی ثابت ہونے پر مالکان کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دیا جائے۔
عدالت عالیہ میں دائر رٹ درخواست میں کہا گیا ہے کہ دبئی لیکس میں کئی پاکستانی سیاستدانوں اور کاروباری شخصیات کے نام آئے ہیں۔ جبکہ ہر سیاستدان پر الیکشن کمیشن کے سامنے اپنی ملک اور بیرون ملک تمام جائیداد ظاہر کرنا لازم ہے۔ لیکن جو اثاثے دبئی لیکس سے سامنے آئے ہیں۔
تاحال ایف آئی اے، نیب اور دیگر متعلقہ اداروں نے ان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ یہ سرمایہ قانونی تھا یا غیر قانونی تھا؟ درخواست دہندہ کا موقف ہے کہ ایف آئی اے، نیب اور دیگر متعلقہ اداروں کو دبئی لیکس کی تحقیقات کرنا چاہئیں اور یہ دیکھنا چاہیے کہ، دبئی میں خریدی گئی پراپرٹیز منی لانڈرنگ سے تو نہیں بنائی گئیں؟ پاناما لیکس کے ایک عشرے کے بعد گزشتہ ہفتے عالمی رہنمائوں، سیاستدانوں اور دیگر بااثر شخصیات کی خفیہ دولت کی تفصیلات کے حوالے سے ’دبئی اَن لاکڈ‘ کے نام سے ایک اور لیک سامنے آئی تھی۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ان اثاثوں کی تفصیلات تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم (آئی سی آئی جے) طرز کے ایک اور تحقیقاتی کنسورشیم آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) نے ڈیٹا لیک کی شکل میں جاری کی تھیں۔ جن میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے چوٹی کے امیر افراد کی دبئی میں اربوں ڈالرز کی جائیدادیں موجود ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سترہ ہزار شہری بھی دبئی میں رہائشی املاک کے مالکان کے طور پر ظاہر کیے گئے ہیں۔ جبکہ ڈیٹا بتاتا ہے کہ پاکستانیوں کی جانب سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں ان کی سرمایہ کاری کی مالیت ساڑھے بارہ ارب ڈالر کے قریب ہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی رٹ کے حوالے سے ’’امت‘‘ نے درخواست گزار مشکور حسین کے وکیل ندیم سرور ملک سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’’ملک کے آئین کے تحت ہر شہری کا حق ہے کہ وہ دبئی میں موجود اثاثوں کے مالکان کے بارے میں جان سکے کہ انہوں نے اتنی سرمایہ کاری کہاں سے حاصل کرکے کی تھی۔ اسی حق کے تحت عدالت عالیہ میں درخواست دی گئی ہے۔ کیونکہ اس میں منی لانڈرنگ کا امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ امر خارج از امکان قرار دیا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے اتنی مہنگی پراپرٹی خریدی یا دیگر امور میں انویسٹ منٹ کی۔ ان کی اس دولت یا پراپرٹی پر پاکستان کی حکومت کو کوئی ٹیکس بھی دیا گیا ہے یا نہیں دیا گیا۔
اگر ٹیکس نہیں دیا گیا تو یہ لوگ قانون کی گرفت میں آتے ہیں۔ اور اگر ٹیکس ادا کرکے گوشواروں میں طاہر نہین کیا گیا تب بھی قانون نے حرکت میں آنا ہے‘‘۔ ندیم سرور ملک کا مزید کہنا تھا کہ اگر پولیس کا سپرنٹنڈنٹ عہدے کا کوئی افسر کروڑوں روپے مالیت کا دبئی میں گھر خریدتا ہے تو یہ تحقیقات تو ہونی چاہئیں کہ اس کے پاس یہ رقم کہاں سے آئی؟ جبکہ عام طور پر ایسی سرمایہ کاری کالے دھن سے کی جاتی ہے اور اسے سفید دھن میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ندیم سرور ملک ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ’’ایسی تحقیقات کا حکم نامہ جاری کروانے کیلئے ہائی کورٹ بہترین اور مناسب ادارہ ہے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ میں ضرورت پڑنے پر رجوع کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے یہ درخواست براہِ راست سپریم کورٹ میں دائر نہیں کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کے خلاف بھی کارروائی کیلئے سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی معہ سب سیکشن تین کے تحت ازخود نوٹس لیا تھا۔ لیکن اس معاملے میں تاحال ایسا کوئی نوٹس لیے جانے کی کوئی اطلاع نہیں۔ عدالت عالیہ لاہور سے رجوع کیا گیا ہے اور اگر کسی مرحلے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی نوبت آئی تو وہاں بھی رجوع کیا جائے گا۔