عمران خان :
چیئرمین سندھ ریونیو بورڈ اور چیئرمین ایکسپورٹ پروسسنگ زون سمیت ایک درجن افسران سے تفتیش کیلئے جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کردی گئی۔ ایکسپورٹ پروسسنگ زون میں اسٹیل کے خام مال کی درآمد میں ملی بھگت سے اربوں روپے ٹیکس چوری اسکینڈل کو خراب کرنے کے الزامات پر کسٹمز انٹیلی جنس افسر نے ایف بی آر ہیڈ کوارٹر کو خط لکھ دیا۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ ڈائریکٹوریٹ کسٹمز انٹیلی جنس کراچی میں اربوں روپے کے میگا ٹیکس چوری اسکینڈل کی تحقیقات سے منسلک رہنے والے کسٹمز سپرنٹنڈنٹ دوست محمد کی جانب سے اعلیٰ حکام کو 13 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی مراسلہ لکھا گیا۔ جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ایکسپورٹ پروسسنگ زون کے نام پر بعض کمپنیوں نے اربوں روپے مالیت کا208 کنٹینرز پر مشتمل لوہے کا خام مال درآمد کیا۔ جس میں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کی گئی۔
جب اس اسکینڈل پر کسٹمز انٹیلی جنس کراچی میں تحقیقات شروع کرکے مقدمات کا اندراج شروع کیا تو کسٹمز انٹیلی جنس، ماڈل کسٹمز اپریزمنٹ پورٹ قاسم سمیت گزشتہ 5 برس میں ان مقامات پر تعینات رہنے والے ایک درجن سے زائد اعلیٰ افسران اور ماتحت افسران کی جانب سے ملزمان کے ساتھ ملی بھگت کرکے اس کیس کو خراب کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ جبکہ ملزمان کو ریلیف دینے کیلئے ماتحت افسر کو تنگ کیا جاتا رہا۔ اسی وجہ سے آج تک اس اسکینڈل پر تفتیش مکمل نہیں ہوسکی۔ اس پورے عرصہ میں ملزمان اور کسٹمز افسران کے درمیان معاملات عدالتوں میں ایک دوسرے کے خلاف پٹیشن اور حکم امتناعی پر ہی چلتے رہے اور 5 برس ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے میں گزر گئے۔
مراسلے میں سفارش کی گئی ہے کہ اس معاملے پر ایف آئی اے، نیب اور حساس اداروں کی مشترکہ جے آئی ٹی بنائی جائے اور مذکورہ ایک درجن اعلیٰ حکام کو اس میں شامل تفتیش کیا جائے۔ تاکہ حقائق کو سامنے لاکر قومی خزانے کو پہنچایا گیا نقصان پورا کیا جاسکے۔ جن افسران کو جے آئی ٹی میں شامل تفتیش کرنے کیلئے کہا گیا ہے کہ ان میں سابق کسٹمز چیف کلکٹر اور موجودہ چیئرمین سندھ ریونیو بورڈ واصف میمن بھی شامل ہیں۔ جو ریٹائرمنٹ کے بعد سندھ حکومت کے ارباب اختیار کے ساتھ اچھے تعلقات کی بنیاد پر کانٹریکٹ پر چیئرمین بننے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اسی طرح سابق کلکٹر پورٹ قاسم اپریزمنٹ ڈاکٹر سیف الدین جونیجو بھی شامل ہیں۔ جو کسٹمز سے ریٹائرمنٹ کے بعد اسی ادارے یعنی ایکسپورٹ پروسسنگ زون کے کانٹریکٹ پر چیئرمین بننے میں کامیاب ہوگئے۔ جس کو نقصان پہنچانے کا ان پر الزام عائد کیا گیا۔ دیگر افسران میں 2 سابق ڈائریکٹر کسٹمز انٹیلی جنس کے ساتھ ہی کسٹمز انٹیلی جنس کے سابق ایڈیشنل کلکٹر علی زمان گردیزی، سابق کلکٹر ایڈجیوڈی کیشن اقبال بھوانہ، سابق کلکٹر پورٹ قاسم، سابق کسٹمز انٹیلی جنس افسر ذوہیب، کسٹمز پورٹ قاسم کے سابق افسر علی اعجاز، سابق کسٹمز انٹیلی جنس سپرنٹنڈنٹ اے ایس او سمیت دیگر افسران شامل ہیں۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق اس معاملے پر رواں برس فروری میں بھی اس وقت بڑی پیش رفت سامنے آئی تھی۔ جب اس اسکینڈ ل پر حتمی کارروائی کیلئے کراچی کی عدالت نے احکامات جاری کیے تھے۔ معاملے کے آغاز میں ڈائریکٹوریٹ کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کی سابقہ اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم کے انچارج دوست محمد نے ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کراچی میں قائم دو کمپنیوں میسرز اسٹیل ویژن پرائیویٹ لمیٹڈ اور میسرز رائل امپیکس لمیٹڈ سمیت اسی مافیا کے تحت ایکسپورٹ پروسیسنگ زون سے باہر چلائی جانے والی دو کمپنیوں میسرز زبیر اسٹیل اور میسرز رضوان ایس بروز لمیٹڈ کے خلاف اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے اہم شواہد حاصل کیے تھے۔
کسٹمز کی تحقیقات کے مطابق مذکورہ کیس میں ملوث ملزمان ای پی زیڈ کے نام پر جنوبی کوریا سے منگوائی گئی11 کنسائمنٹس میں 208 کنٹینرز کو قاسم انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل سے بل آف لیڈنگ میں خلاف ضابطہ تبدیلی کر کے ٹیکس چوری کے مقدمے میں مطلوب تھے۔ جبکہ سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت بھی حاصل کی جا چکی ہے۔ کسٹمز کی تحقیقات کے مطابق ان کمپنیوں کو چلانے والے افراد بظاہر مالکان اور امپورٹرز ہیں۔ جبکہ پس پردہ وہ سرکاری افسران کی جانب سے کمائے گئے کالے دھن سے ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرکے کئی گنا زائد منافع کما رہے تھے۔
تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کراچی میں قائم ان کمپنیوں کے نام پر آنے والے سامان کے کنٹینرز بیرون ملک سے دیگر دو کمپنیوں کے نام پر منگوائے جاتے تھے۔ تاہم کراچی میں بندرگاہوں سے انہیں ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں قائم کمپنیوں میسرز اسٹیل ویژن پرائیویٹ لمیٹڈ اور میسرز رائل ایمپیکس لمیٹڈکے نام پر منگواکر سبسڈی پر کم ڈیوٹی اور ٹیکس پر کلیئر کرواکر اس سامان کو ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں لانے کے بجائے میسرز زبیر اسٹیل اور میسرز رضوان ایس بروز لمیٹڈ کے نام پر اوپن مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا رہا۔اس کے ساتھ ہی اس مافیا نے ایک کنسائنمنٹ کیلئے کھولی گئی ایل سی میں رد و بدل کرکے کئی کنسائنمنٹس کی ادائیگی کے نام پر کروڑوں ڈالرز کا زر مبادلہ بیرون ملک بھجوایا جو منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے۔
ذرائع کے بقول ڈائریکٹوریٹ کسٹمز انٹیلی جنس کراچی نے اس انکوائری میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے ماسٹر مائنڈ اور دیگر درجن بھر ملزمان جن میں کمپنیوں کے مالکان اور ایجنٹ شامل تھے، کے خلاف مجموعی طور پر آگے چل کر 9 مقدمات درج کیے۔ اس میں ماسٹر مائنڈ کو گرفتار بھی کرلیا گیا تھا۔ تاہم ایک سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر کی ہدایت پر اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ کسٹمز اے ایس او انٹیلی جنس کے ذریعے بغیر کارروائی کئے ملزم کو رہا کرلیا گیا تھا۔
دوسری جانب اسی اسکینڈل میں کسٹمز افسر کی جانب سے مرکزی ملزم قرار دیئے گئے کمپنی مالک عبداللہ کی جانب سے بھی ایف آئی اے سے رجوع کیا گیا تھا۔ ان کی جانب سے دی گئی درخواست میں کہا گیا کہ انہوں نے اپنی کمپنیوں اسٹیل ویژن اور رائل پرائیویٹ لمیٹڈ کے ذریعے ساؤتھ کوریا سے اسٹیل کے 208 کنٹینر قانونی طور پر منگوائے۔ تاہم کسٹمز افسر دوست محمد نے ان کے کلیئرنگ ایجنٹ محمد انور کے ذریعے ان سے دو کروڑ رشوت طلب کی اور نہ دینے پر انہوں نے سامان روک دیا۔ جس پر انہوں نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ تاہم اسی دوران کسٹمز انٹیلی جنس کی ٹیم نے غیر قانونی طور پر ان پر حملہ کرکے انہیں حبس بے جا میں رکھ لیا۔ بعد ازاں عدالت میں پٹیشن کرنے پر کسٹمز افسر ارشاد شاہ نے انہیں لاک اپ سے رہا کردیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اس دوران 9 کروڑ کا نقصان ہوا۔ جو انہیں پورٹ قاسم کو اضافی دینے پڑے۔ اس معاملے میں دوست محمد کے خلاف رشوت ستانی اور ہراسگی کی کارروائی کی جائے۔