فائل فوٹو
فائل فوٹو

تحریک انصاف کی جھوٹی مقبولیت کا پردہ چاک ہونے لگا

امت رپورٹ:
عام انتخابات کے بعد اب تک ہونے والے ضمنی الیکشن نے تحریک انصاف کی جھوٹی مقبولیت کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اب تک تئیس ضمنی الیکشن ہوئے ہیں۔ ان میں سے محض دو سیٹیں پی ٹی آئی جیت سکی ہے۔

ملتان کی نشست این اے ایک سو اڑتالیس پر ہونے والے حالیہ ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار اور چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی قاسم گیلانی نے عمران خان کے وکیل بیرسٹر تیمور کو چت کر دیا۔ علی قاسم گیلانی کو تیراسی ہزار دو سو پچاس ووٹ ملے اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ بیرسٹر تیمور محض اکیاون ہزار پانچ سو بہتر ووٹ حاصل کر سکے۔

یوں انہیں اکتیس ہزار سے زائد ووٹوں کے بھاری مارجن سے شکست ہوئی۔ اس واضح ہار پر بھی پی ٹی آئی نے دھاندلی کا وہی پرانا راگ الاپا۔ لیکن اس حلقے کی انتخابی مہم کو قریب سے دیکھنے والے صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار بیرسٹر تیمور کو انتخابی مہم چلانے کی پوری آزادی تھی۔ لیکن وہ یہ سوچ کر گھر سے نہیں نکلے کہ عمران خان کا وکیل ہونے کے ناطے انہیں مقبولیت کا ووٹ پڑجائے گا۔ اس کے برعکس علی قاسم گیلانی نے گھر گھر جاکر انتخابی مہم چلائی۔

پھر یہ کہ مذکورہ حلقے میں گیلانی خاندان کی سیاست کا کافی اثر رسوخ ہے۔ یہ سیٹ قاسم گیلانی کے والد یوسف رضا گیلانی نے ہی جیت کر خالی کی تھی۔ قاسم گیلانی نے اپنے والد سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ فروری دو ہزار چوبیس کے عام انتخابات میں اس سیٹ پر یوسف رضا گیلانی نے سڑسٹھ ہزار تین سو چھبیس ووٹ لئے تھے۔ قاسم گیلانی کی جیت میں ایک اور نکتہ بھی اہم ہے کہ ضمنی الیکشن میں اگرچہ نون لیگ نے اعلانیہ ان کی حمایت کا اعلان کر رکھا تھا۔ تاہم نون لیگ کے متعدد ناراض سابق ارکان اسمبلی اندرون خانہ بیرسٹر تیمور کو سپورٹ کر رہے تھے۔ اس کے باوجود وہ ہار گئے۔ اس سے بھی پی ٹی آئی کی مقبولیت کے غبارے میں سے ہوا نکلنے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

فروری کے عام انتحابات کے بعد ہونے والے تئیس ضمنی انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے چھ قومی اسمبلی کی سیٹوں اور سترہ صوبائی نشستوں پر ہوئے۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے۔ ان میں سے قومی اسمبلی کی دو سیٹیں این اے ایک سو ننانوے (لاہور) اور این اے ایک سو بتیس (قصور) نون لیگی رہنمائوں علی پرویز اور رشید احمد خان نے جیتیں۔ جبکہ این اے ایک سو اڑتالیس (ملتان) سے پیپلز پارٹی کے امیدوار قاسم گیلانی کامیاب ہوئے۔ جبکہ پنجاب میں اب تک صوبائی حلقوں پر ہونے والے بارہ حلقوں میں سے نو پر نون لیگ نے کامیابی حاصل کی۔ ایک، ایک سیٹ استحکام پاکستان پارٹی، قاف لیگ اور پیپلز پارٹی کو ملی۔ یوں پنجاب سے پی ٹی آئی کا مکمل صفایا ہوگیا اور وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے سے قومی یا صوبائی اسمبلی کی ایک نشست بھی نہیں جیت سکی۔

قومی اسمبلی کے دیگر تین حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں سے پی ٹی آئی صرف ایک سیٹ جیت سکی۔ این اے چوالیس ڈیرہ اسماعیل خان سے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کے بھائی فیصل امین خان کامیاب ہوئے۔ جبکہ اپنے اس مضبوط سیاسی گڑھ سے بھی پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی دوسری سیٹ ہار گئی۔ باجوڑ سے اس کے امیدوار کو آزاد امیدوار مبارک زیب نے شکست فاش دی۔ قومی اسمبلی کی تیسری سیٹ این اے ایک سو چھیانوے قمبر شہداد کوٹ پر پیپلز پارٹی کے امیدوار خورشید جونیجو نے میدان مار لیا۔ یہ سیٹ بلاول بھٹو زرداری نے خالی کی تھی۔

بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی تین سیٹوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں بلوچستان عوامی پارٹی، نون لیگ اور اے این پی نے ایک ایک سیٹ حاصل کی۔ یوں یہاں بھی پی ٹی آئی ایک سیٹ بھی حاصل نہ کر سکی۔ سندھ میں بھی پی ٹی آئی کو منہ کی کھانی پڑی۔ خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلی کی دو سیٹوں میں سے بھی صرف ایک نشست پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار کے حصے میں آسکی۔ جبکہ دوسری سیٹ آزاد امیدوار نے حاصل کی۔ یوں قومی و صوبائی اسمبلی کی مجموعی طور پر تئیس سیٹوں پر اب تک ہونے والے ضمنی انتخابات میں سے پی ٹی آئی صرف دو نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں وزیر آباد سمیت پنجاب کی دو صوبائی سیٹیں ایسی بھی ہیں۔ جو پی ٹی آئی کے کامیاب امیدواروں نے خالی کی تھیں اور ضمنی الیکشن میں ان کے ہاتھ سے نکل گئیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کے بقول یہ عام رجحان ہے کہ ضمنی انتخابات عموماً برسراقتدار پارٹیاں ہی جیتتی ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کے دور حکومت میں نون لیگ ضمنی الیکشن میں اکثریتی سیٹیں جیت کر اس کلیہ کے آگے سوالیہ نشان لگا چکی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی عبرتناک شکست سے واضح ہوگیا ہے کہ اس کی نام نہاد مقبولیت صرف سوشل میڈیا کی حد تک برقرار ہے۔