محمد علی:
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے پیلی کاپٹر حادثے میں امریکا کا بلواسطہ کردار سامنے آگیا۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ہی ایران کی حکومت کو ہیلی کاپٹر بیل 212 کے اسپیئر پارٹس خریدنے کی اجازت نہیں تھی۔
دوسری جانب 45 برس پرانے امریکی ساختہ ہیلی کاپٹر کی اپ گریڈیشن ناگزیر تھی، جس کا استعمال دھائیوں قبل ہی متروک ہوچکا ہے۔ لیکن متبادل نہ ملنے کے باعث ایران اسے استعمال کرنے پر مجبور تھا۔ جبکہ نئے ہیلی کاپٹرز کی خریداری میں بھی رکاوٹیں حائل تھیں۔ ایرانی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ ہیلی کاپٹر میں بلندی اور مقامات کی معلومات دینے والا ٹرانسپونڈر سسٹم بھی نہیں تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ حادثے کے بعد ہیلی کاپٹر کی منظر عام پر آنے والی تصاویر بھی جعلی تھیں۔ رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سوشل میڈیا پر جاری ان تصاویر کو صدر رئیسی اور ان کے ساتھیوں کے ہیلی کاپٹر کے ملبے کی تصویر کہا گیا۔ تاہم یہ مبلہ 2020ء میں ایران کے ایک تربیتی طیارے کا تھا جو، وزرقان کے پہاڑوں میں گر گیا تھا۔
دوسری جانب ایران کے سابق وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکی پابندیوں کو ہیلی کاپٹر حادثے کا بلواسطہ ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے بتایا کہ امریکی اقدامات کی وجہ سے ہی اسپیئر پارٹس یا پرزے نہیں خریدے جا سکے تھے۔ انہوں نے کہا یہ سانحہ ایرانی قوم کے خلاف امریکی جرائم کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔ ادھر ترکیہ کے ریسکیو گروپ کی ابتدائی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا کہ جس ہیلی کاپٹر میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان سوار تھے، اس میں یا تو سگنل بھیجنے والا آلہ ٹرانسپونڈر بند تھا یا موجود ہی نہیں تھا۔
برطانوی اخبار گارجین کی رپورٹ کے مطابق ترک وزیر ٹرانسپورٹ عبدالقادر یورالو اوغلو نے صحافیوں کو بتایا کہ حادثے کی خبر سنتے ہی ترک حکام نے ہیلی کاپٹر کے ٹرانسپونڈر سے سگنل کی جانچ کی، لیکن حادثے کے مقام کا فوری تعین نہیں کیا جا سکا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرانسپونڈر سسٹم بند تھا یا نصب ہی نہیں کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ ایرانی حکومت کو پہلے ہی پرانے ہیلی کاپٹروں کی خراب حالت سے متعلق خبردار کردیا گیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ حکام کی جانب سے ایک میمو میں ایرانی حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اپنے سیاسی قائدین اور اہم شخصیات کے لیے 2 روسی ہیلی کاپٹر خریدیں۔ کیونکہ امریکی ساختہ پرانے ہیلی کاپٹروں کی حالت ٹھیک نہیں تھی جس پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی جس ہیلی کاپٹر میں سفر کررہے تھے وہ امریکہ کا تیار کردہ بیل 212 ہیلی کاپٹر تھا۔ بیل ہیلی کاپٹر نامی کمپنی (جسے اب بیل ٹیکسٹرون کے نام سے جانا جاتا ہے) نے 1960ء کی دہائی کے آخر میں اس ہیلی کاپٹر کو تیار کیا تھا۔ یہ یو ایچ-ون ایروکوس (UH-1 Iroquois) ہیلی کاپٹر کا اپ گریڈ ورژن تھا، جو خاص طور پر کینیڈین فوج کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔