فائل فوٹو
فائل فوٹو

کیا عمران خان بقر عید سے پہلے باہر آ جائیں گے؟

امت رپورٹ:

پی ٹی آئی یہ آس لگائے بیٹھی ہے کہ عمران خان بقرعید سے پہلے رہا ہوجائیں گے۔ اس حوالے سے آنے والا ہفتہ بہت اہم ہے۔ اس دوران بانی پی ٹی آئی کو دواہم کیسز میں سنائی جانے والی سزائوں کے خلاف اپیلوں کے فیصلے آنے ہیں۔ جمعرات کے روز ان میں سے ایک عدت نکاح کیس کا فیصلہ عدالت نے محفوظ کرلیا جو انتیس مئی کو سنایا جائے گا۔

جبکہ سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیل کی اہم سماعت اٹھائیس مئی کو ہونے جارہی ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس روز عدالت اس اپیل پر اپنا فیصلہ سنادے گی یا محفوظ کرلے گی۔ واضح رہے کہ عمران خان کو اب تک چار مقدمات میں سزا سنائی جاچکی ہے۔ سائفر کیس میں دس برس ،

نکاح عدت کیس میں سات برس اور توشہ خانہ سے متعلق دو مختلف مقدمات میں انہیں بالترتیب تین برس اور چودہ برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان میں سے توشہ خانہ کیسز میں سنائی جانے والی دونوں سزائیں ہائی کورٹس نے معطل کردی تھیں اور اس وقت ان کیسوں میں سنائی جانے والی سزائوں کے خلاف اپیلیں زیر سماعت ہیں۔ باقی دوکیسوں میں سے ایک عدت نکاح کیس میں ہونے والی سزا کے خلاف اپیل پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ اس سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے کی۔ فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے عدت نکاح کیس پر عمران خان اور بشریٰ بی بی کی جانب سے دائر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو منگل انتیس مئی کو سنایا جائے گا۔

تحریک انصاف کے وکلا کو توقع ہے کہ عدت نکاح کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سنائی جانے والی سات سات برس قید کی سزا کالعدم قرار دیدی جائے گی۔ اس کیس میں سزاکے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران جو عدالتی ریمارکس آئے، ان سے بھی یہ عندیہ مل رہا ہے کہ ممکنہ طور پر دونوں میاں بیوی کو ریلیف مل جائے گا۔

دوسرا اہم سائفر کیس ہے، جس میں عمران خان کو دس برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اپیلوں پر جمعرات کو ہونے والی سماعت اہم قرار دی جارہی تھی اور توقع کی جارہی تھی کہ اپیلوں پر فیصلہ سنادیا جائے گا یا محفوظ کرلیا جائے گا۔ تاہم ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی اپنے دلائل مکمل نہ کرسکے اور انہوں نے مزید مہلت مانگ لی، جس پر عدالت نے اٹھائیس مئی تک مہلت دے دی۔

غالب امکان ہے کہ اس روز پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی اور عمران خان کے وکیل سلمان صفدر اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیں گے۔ جس کے بعد فیصلہ سنادیا جائے گا یا محفوظ کرلیا جائے گا۔

عدت نکاح کیس اور سائفر کیس میں سنائی جانے والی سزائوں کے خلاف اپیلوں کا فیصلہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے اس لئے بہت اہم ہے کہ اگر ان دونوں کیسوں میں عمران خان کو بری کردیا جاتا ہے تو جیل سے ان کی رہائی کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ کیونکہ بانی پی ٹی آئی کو دیگر دو کیسوں میں سزائی جانے والی سزائیں پہلے ہی معطل کی جاچکی ہیں۔ چنانچہ تحریک انصاف کی قیادت اور ان کے وکلا نے ان دونوں کیسوں کے فیصلوں سے آس لگالی ہے۔ اگرچہ عدت نکاح کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے بری ہونے کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں تاہم سائفر کیس کا معاملہ کچھ پیچیدہ ہے۔

دیکھنا ہوگا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سائفر کیس کو ازسرنو چلانے کے لئے دوبارہ ٹرائل کورٹ بھیجتا ہے یا پھر کیس کا فیصلہ میرٹ پر سنایا جاتا ہے۔ میرٹ پر سنائے جانے کا مطلب یہ ہے کہ عدالت دیکھی گی ، آیا عمران خان نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی یا قومی راز افشا کئے یا نہیں؟ اگر سرکاری وکیل یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ عمران خان نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور اسی بنیاد پر ٹرائل کورٹ نے انہیں سزا دی تو اسلام آباد ہائی کورٹ یہ سزا برقرار رکھ سکتا ہے۔ اور اگر سرکاری وکیل ایسا ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو پھر عدالت عمران خان کو بری کرسکتی ہے اور یوں اس کیس میں ان کی رہائی ممکن ہوجائے گی۔ تاہم یہ خارج از امکان نہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کیس کو ریمانڈ کردے،

اس کا مطلب یہ ہے کہ کیس کو دوبارہ چلانے کے لئے ٹرائل کورٹ واپس بھیج دیا جائے۔ جمعرات کی سماعت میں ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے بھی عدالت سے یہی استدعا کی کہ کیس کو ریمانڈ کیا جائے۔ کیونکہ عمران خان کے وکیل کی جانب سے بھی یہ اعتراض آیا تھا کہ سائفر کیس کا فیصلہ جلد بازی میں سنایا گیا۔ اور یہ شفاف ٹرائل نہیں تھا۔ اس کے جواب میں پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی کا موقف تھا کہ سائفر کیس میں عمران خان کا ٹرائل شفاف ہوا۔ تاخیری حربے خود ان کے وکلا نے اپنائے تھے۔ لیکن پھر بھی اگر عمران خان کے وکیل سمجھتے ہیں کہ ان کے موکل کو غیر منصفانہ ٹرائل کا سامنا رہا تو پھر اس کیس کو ازسرنو چلانے کے لئے ٹرائل کورٹ واپس بھیج دیا جائے۔

اب دیکھنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اس کیس کا فیصلہ میرٹ پر سناتا ہے یا پھر دوبارہ ٹرائل کورٹ کو بھیج دیتا ہے۔ تحریک انصاف کا خیال ہے کہ عدت نکاح کیس اور سائفر کیس میں اگر عمران خان کو بری کردیا جاتا ہے تو پھر بقرعید سے پہلے وہ جیل سے باہر آجائیں گے۔ کیونکہ توشہ خانہ کے دیگر دو کیسوں میں سنائی جانے والی سزائیں پہلے ہی معطل کی جاچکی ہیں۔ تاہم اسلام آباد میں موجود اہم ذرائع کے بقول عمران خان کی جلد رہائی کے امکانات معدوم ہیں۔ اس سے قبل ہی بانی پی ٹی آئی کے خلاف جو دیگر مقدمات چل رہے ہیں ان میں سے کسی ایک میں انہیں سزا سنائے جانے کا واضح امکان ہے۔