نواز طاہر:
سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی بد عنوانی کے مقدمہ میں رہائی کے بعد ذاتی امور میں مصروف ہوگئے ہیں اور اگلے چند دنوں کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں بھی متحرک ہوسکتے ہیں۔
تاہم ان کی رہائی کے بعد یہ سوال زیر بحث ہے کہ پی ٹی آئی کے قائدین کی مسلسل روپوشی اور جیلوں میں بند رہنے کے دوران چودھری پرویز الٰہی کی رہائی کیسے ممکن ہوئی۔ یہ کسی ڈیل کا نتیجہ ہے یا دیگر مقاصد ہیں۔ اور یہ کہ مستقبل میں ان کا کیا کردار ہو سکتا ہے۔ قانونی حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاسی معاملات اپنی جگہ۔ لیکن قانونی طور پر ضمانت ان کا حق بنتا تھا۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی دوبارہ گرفتاری خارج از امکان نہیں کہ ان پر سانحہ نو مئی کے مقدمات بھی درج ہیں۔ فی الحال انہیں ایک موقع دیا گیا ہے۔ بصورت دیگر شکنجہ کسنے میں دیر نہیں لگے گی۔
واضح رہے کہ چودھری پرویز الٰہی کو ایک سال قبل مختلف مقدمات میں گرفتار کیا گیا تھا اور یکے بعد دیگرے ضمانت ہوتے ہی گرفتار کیا جاتا رہا۔ اب بھی ان کیخلاف ایک درجن سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ جن میں انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ یہ مقدمات سانحہ نو مئی کے حوالے سے لاہور، راولپنڈی اور فیصل آباد میں درج ہیں۔ جن میں انہیں بھی نامزد کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ تین روز قبل عدالتِ عالیہ لاہور سے ضمانت کے بعد پرویز الٰہی کو نو مئی کے واقعات پر درج مقدمات میں نامزد ہونے پر گرفتار نہیں کیا گیا۔ جبکہ ان مقدمات کی تفصیل بھی لاہور ہائیکورٹ میں ہی پیش کی گئی ہے اور اسی بنا پر یہ بحث جاری ہے کہ کیا ان کی رہائی میں کسی ڈیل کا کوئی پہلو شامل ہے۔ پی ٹی آئی کے حلقے اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ پی ٹی آئی کے ایک دیرینہ رہنما نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر پرویز الٰہی نے ڈیل ہی سے رہائی حاصل کرنا تھی تو عدالتوں اور جیلوں کی خواری بھگتنے کی کیا ضرورت تھی۔
اس سوال پر کہ پی ٹی آئی کے اندر چوہدری پرویز الٰہی کی اس وقت کیا پوزیشن ہوسکتی ہے اور انہیں کیا کردار مل سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا پی ٹی آئی میں ہر شخص کی اپنی پوزیشن ہے اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ ثابت قدمی سے پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ ان کے پاس ریکارڈ کے مطابق پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں۔ لیکن وہ پہلے کی نسبت پی ٹی آئی میں بہتر مقام رکھتے ہیں۔ ان کے عہدے اور ذمہ داری کا تعین یا اعلان بانی پی ٹی آئی نے کرنا ہے اور سبھی اسی کو فالو کریں گے۔ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی اور مخدوم شاہ محمود کے درمیان قیادت یا عہدے کا کوئی جھگڑا یا حسد موجود نہیں۔ جس کو بھی جو ذمہ داری ملے گی۔ وہ اسے نبھائے گا۔
دوسری جانب شنید ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی کو بھی جلد رہائی مل جائے اور ان کے بعد میاں اسلم اقبال بھی روپوشی ختم کرکے منظرِ عام پر آسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے قریبی حلقوں میں وقت گزارنے والے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کو ممکنہ طور پر کوئی ذمہ داری ملنے والی نہیں اور وہ ہومیو پیتھک سیاسی کردار کی کوشش کرتے رہیں گے اور سیاسی طور پر خود کو زندہ رکھیں گے۔ ہوسکتا ہے انہیں یہ گمان ہو کہ بانی پی ٹی آئی کا خاص حلقوں میں زیرو ہونے کے بعد کوئی کردار چودھری پرویز الٰہی کے حصے میں آئے تو یہ سوچنا ابھی قبل از وقت ہے۔
تجزیہ کار مزمل سہروردی کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی کنفرم اطلاع نہیں کہ چودھری پرویز الٰہی کس ڈیل پر رہا ہوئے ہیں۔ البتہ یہ کچھ مفاہمت ضرور لگتی ہے۔ جسے سیاسی معافی تلافی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس سپریم کورٹ بار کے سابق نائب صدر چودھری غلام مرتضیٰ ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ ان کی ضمانت میرٹ پر ہوئی ہے۔ اگر فرض کریں کوئی ڈیل ہے تو اس میں چوہدری پرویز الٰہی نے بہت تاخیر کی ہے۔
یہ کام وہ جنرل الیکشن سے پہلے کرتے تو کوئی فائدہ پہنچ سکتا تھا‘‘۔ ادھر چودھری پرویز الٰہی کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ابھی تو انہوں نے پوری طرح آزاد فضا میں سانس نہیں لی۔ سیاسی تحرک اور ذمہ داریوں پر بحث تو بعد کی بات ہے۔ ابھی سیاسی جماعتوں کا اجتماع ہونے والا ہے اور چوہدری پرویز الٰہی کا سیاسی قد کاٹھ ہے۔ جب یہ اجتماع ہوگا تو ان کا کوئی کردار سامنے آسکتا ہے اور وہ مثبت کردار ہوگا۔ وائلنٹ ایجیٹیشن کا کردار نہیں ہوگا۔
دریں اثنا پنجاب کے انتظامی حلقوں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی اطلاع کنفرم نہیں کی جا سکتی کہ چوہدری پرویز الٰہی کو نو مئی کے واقعات میں کب گرفتار کرنا ہے۔ مقدمات قانون کے تحت درج ہوئے ہیں۔ اگلا کام تفتیش کرنے والوں کا ہے یا عدلیہ کا، جہاں سے انہیں رہائی ملی۔