حسام فاروقی:
شیطان مردود کے پیروکاروں پر مشتمل تنظیم ’’الومناتی‘‘ نیٹ ورک کی کراچی میں موجودگی کے شواہد سامنے آنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس معاملے کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
اس معاملے کا انکشاف 4 روز قبل خاتون پولیس افسر ارم امجد کے ہاتھوں رضویہ کے علاقے سے گرفتار ہونے والے ملزم طاہر عباس مرزا نے کیا ہے جو کہ خود بھی اس شیطانی تنظیم کا پیروکار اور اسکول ٹیچر ہے۔ 23 اپریل کو ایس ایچ او وومن لیاقت آباد ارم امجد کو ایک خاتون کی جانب سے شکایت موصول ہوئی کہ اس کا بہنوئی اس کی بہن اور اس کی بھانجیوں کی نازیبا ویڈیوز بنا کر الومناتی نیٹ ورک کی ایک ویب سائٹ پر اپلوڈ کر رہا ہے۔
اس شیطانی فعل کے احکامات اس کے بہنوئی کو اس ویب سائٹ کے ہینڈلر دیتے ہیں اور ویڈیوز اپلوڈ کرنے پر اسے ڈالروں میں رقم بھی فراہم کی جاتی ہے۔ جس پر خاتون پولیس افسر ارم امجد نے چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے ملزم طاہر عباس مرزا کو حراست میں لیا اور اس کے چنگل سے درخواست گزار خاتون کی بہن اور اس کی بچیوں کو تحویل میں لے کر تھانے منتقل کیا۔ جس کے بعد ملزم کی اہلیہ کی مدعیت میں بھی ملزم طاہر عباس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
پولیس نے ملزم کی اہلیہ اور بیٹیوں کو میڈیکل رپورٹ کے لئے اسپتال منتقل کیا۔ ملزم کی اہلیہ نے پولیس کو بتایا کہ طاہر عباس گزشتہ دو سال سے شیطان کے پیروکاروں پر مشتمل الومناتی نامی تنظیم کا رکن ہے اور اس نے یہ رکنیت انٹر نیٹ کے ذریعے مختلف ٹاسک مکمل کرکے حاصل کی ہے، جس پر یہ نیٹ ورک اسے مالی فائدہ پہنچاتا ہے۔
متاثرہ خاتون کا مزید کہنا تھا کہ اس کے شوہر کو الومناتی نیٹ ورک کی جانب سے یہ ہدایات دی جاتی تھیں کہ وہ اہلیہ کے ساتھ ازدواجی تعلقات کے دوران تشدد کا نشانہ بنائے اور اس کی ویڈیو بنا کر شیطانی تنظیم کو بھیجے۔
متاثرہ خاتون نے بتایا کہ ’’میرے شوہر نے سینکڑوں بار میرے ساتھ یہ سب کچھ کیا اور میری ویڈیوز انہیں بھیج کر ڈالروں میں رقم وصول کی۔ جبکہ کچھ ماہ قبل اسے شیطانی تنظیم کی جانب سے ٹاسک دیا گیا کہ وہ اپنی بیٹیوں کی بھی بے لباس ویڈیوز بنا کر انہیں سینڈ کرے۔ جس پر طاہر عباس مرزا نے اپنی بیٹیوں کے زیر استعمال باتھ روم میں کیمرے لگائے تھے اور ان کی ویڈیوز بھی اس شیطانی تنظیم کو بھیجی تھیں۔ اس بات کا علم جب مجھے ہوا تو طاہر عباس نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں، جس پر میں نے اس ظلم کے بارے میں اپنی بہن کو بتایا اور اس سے کہا کہ پولیس سے مدد طلب کرے‘‘۔
دوسری جانب گرفتار ملزم طاہر عباس مرزا کا کہنا ہے کہ ’’میں نے اس تنظیم سے رابطہ ضرور کیا تھا۔ مگر ان کی جانب سے گھنائونے ٹاسک ملنے پر ان سے رابطہ منقطع کر دیا اور میرا ان سے اب کوئی رابطہ نہیں۔ میری سالی، اہلیہ اور بیٹیاں مجھ پر جھوٹے الزامات لگا رہی ہیں۔
اس معاملے پر ایس ایچ او وومن لیاقت آباد ارم امجد نے بتایا کہ ’’ہم نے متاثرین کا میڈیکل کرایا ہے اور اس کی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔ جبکہ ہم نے ملزم کا ریمانڈ بھی حاصل کیا ہے تاکہ تفتیش کرکے اصل حقائق سامنے لا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گرفتار ملزم کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ کا بھی فارنزک کروایا جا رہا ہے۔ تاکہ مزید شواہد بھی سامنے آسکیں۔ ملزم کے بار بار اپنے بیانات تبدیل کرنے سے ہمیں یہ شک تو ہے کہ ملزم بہت کچھ پولیس سے چھپا رہا ہے‘‘۔
واضح رہے کہ الومناتی نامی شیطانی تنظیم تمام مذاہب سے انکاری ہے۔ اور صرف شیطان مردود ہی کو اپنا آقا مانتی ہے، اس کے پیروکاروں میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ماضی میں بھی کئی ایسی خبریں زیر گردش رہی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شیطانی تنظیم نے پاکستان میں بھی نیٹ ورک بنا رکھا ہے اور پاکستان کے کئی شہروں کے پوش علاقوں میں ان کے معبد خانے موجود ہیں۔ ان کی سرگرمیاں انتہائی خفیہ ہوتی ہیں۔ یہ تنظیم اتنی خطرناک بھی ہے کہ اپنے راستے میں آنے والے کسی بھی شخص کو قتل کرانے سے بھی نہیں چوکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا جو بھی رکن ان سے کنارہ کش ہوتا ہے یا باغی ہو جاتا ہے، یہ تنظیم اس کے ساتھ ساتھ اس کے پورے خاندان کو ہی قتل کروا دیتی ہے۔ تاکہ ان کے خلاف کوئی بھی ثبوت منظر عام پر نہیں آسکیں۔
اس تنظیم کا نشان ایک آنکھ ہے جسے یہ دجالی یا شیطانی آنکھ کہتے ہیں اور ان کے معبد خانوں میں باقائدہ شیطان مردود کا مجسمہ بنا کر اس کی عبادت کی جاتی ہے۔ ساتھ ساتھ یہ اس مجسمے کو انسانی جانوں کی بھینٹ اور خون بھی دیتے ہیں۔ تاکہ شیطان ان سے خوش ہو کر انہیں ماورائی طاقتیں اور دولت فراہم کرے۔ یہ معلومات بھی سامنے آئی ہیں کہ دنیا کی کئی طاقت ور شخصیات سمیت فیشن انڈسٹری اور دنیا بھر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بعض بڑی شخصیات بھی اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ یہ تنظیم 244 سال پہلے یعنی سال 1776ء میں وجود میں آئی تھی اور اس کی پیدائش کی جگہ یورپ ہے جہاں سے اب یہ پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق الومناتی تنظیم اس حد تک مضبوط ہوگئی ہے کہ بڑے ملکوں کے حکومتی فیصلے بھی اس تنظیم کی مرضی پر ہوتے ہیں اور اس وقت دنیا بھر کی زیادہ تر معشیت بھی یہی تنظیم کنٹرول کر رہی ہے۔
اس تشویش ناک و حساس معاملے پر ’’امت‘‘ کی جانب سے ایک تحقیقاتی عمل شروع کیا گیا ہے اور جلد ہی، پاکستان میں یہ نیٹ ورک کہاں کہاں موجود ہے اور پاکستان میں ان کے کتنے پیروکار شیطانی کام انجام دے رہے ہیں؟ اس حوالے سے ایک جامع رپورٹ شائع کی جائے گی۔ جب کہ ’’امت‘‘ کی جانب سے یہ تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں کہ پاکستان میں اس تنظیم کے پیروکار، عام افراد ہیں یا یہ شیطانی نیٹ ورک پاکستان کی سیاسی و کاروباری شخصیات کو بھی اپنے چنگل میں پھنسا چکا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نیٹ ورک کی جانب سے با رسوخ شخصیات کو تنظیم میں شامل کرنے کے لئے جو سب سے موثر ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، وہ خوش شکل لڑکیوں کی صورت میں ہے جن کے چنگل میں پھنس کر وہ شخصیات، الومناتی پیروکار بننے اور ان کی ہر بات ماننے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔