اقبال اعوان:
کراچی میں یہودیوں کا ڈھائی سو سالہ قدیم قبرستان کھنڈر بن گیا۔ 44 سال سے کوئی مردہ دفنایا نہیں گیا۔ پشتوں سے رکھوالی کرنے والے بلوچ افراد کا کہنا ہے کہ ان کو کئی سال سے معاوضہ نہیں ملا اور نہ سندھ حکومت کوئی مدد کرتی ہے۔ جبکہ گینگ وار کے کارندوں اور کالے علم کرنے والوں کو روکنے کے لیے ڈراونے واقعات گھڑے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاک کالونی کے علاقے میں جہان آباد کی جانب سے میوہ شاہ قبرستان میں یہودیوں کا قدیم قبرستان واقع ہے۔ ڈیڑھ ایکڑ سے زائد رقبے پر واقع اس قبرستان میں 900 سے زائد قبریں ہیں۔ مرکزی گیٹ نشئی نکال کر لے گئے۔ ایک حصے پر پردے ڈال کر کام چلایا جارہا ہے۔ جبکہ بنی اسرائیل قبرستان کا بورڈ ٹوٹ کر گر چکا ہے۔ قبرستان کے اندر قیمتی ماربل کے پتھر جو قبروں پر لگائے گئے تھے، انہیں چوری کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف مقبرے نما قبروں کے دروازے، کھڑکیاں نکال کر لے گئے ہیں۔ یہ قبرستان کم اور جنگل نظر زیادہ آتا ہے کہ ہر طرف جھاڑیاں نظر آتی ہیں۔
قبرستان میں جانے والوں کو اندر احاطے میں رہائش پذیر بلوچ خواتین روکتی ہیں کہ ان کو اجازت نہیں ہے کہ کسی کو اندر جانے دیا جائے۔ وہ زبردستی جانے والوں کو پولیس کے حوالے کر دیتی ہیں۔ یہاں کے گورکن چاند بلوچ کا کہنا ہے کہ ان کی سات پستیں ادھر خدمت کرتی رہی ہیں اور ابھی بھی بلامعاوضہ کر رہی ہیں۔ یہ قدیم قبرستان ہے اور قیام پاکستان کے بعد یہودی کراچی میں رہتے تھے تب ان کی مرکزی عبادت گاہ رامسوامی میں تھی۔
وہاں مارکیٹ کی دکانوں کا کرایہ یہودیوں کا وکیل حاصل کرتا تھا جو 20 سال قبل تک کرایہ وصول کرتا رہا۔ اس کے مرنے کے بعد دکانیں فروخت کر دی گئیں۔ اس قبرستان میں آخری یہودی مردہ 1980ء میں دفنایا گیا۔ اس کے بعد مردہ لے کر نہیں آئے اور پھر کراچی میں حالات خراب ہوئے تو یہودی چلے گئے۔ اب بھی کراچی میں چند یہودی خاندان آباد ہیں۔ تاہم خود کو خفیہ رکھتے ہیں اور قبرستان نہیں آتے۔ فاطمہ بلوچ نامی خاتون کا کہنا تھا کہ امریکہ اور دیگر ملکوں سے یہودی آتے ہیں تو اپنے رشتہ داروں کی قبریں دیکھ کر ویڈیو بنا کر لے جاتے ہیں اور جاتے ہوئے چند ہزار روپے دے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ احاطے میں جس کمرہ نما جگہ پر عارضی رہائش گاہ بنا کر رہتی ہیں، وہ ان کا مردہ خانہ ہے اور وہاں مُردوں کو رکھتے تھے اور آگے چبوترہ بنا ہے جہاں مردے کو نہلاتے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کو قدیم قبرستان کے احاطے میں سرکاری کوارٹرز بنا کر رکھا جاتا۔ سرکاری اداروں کو آگاہ کیا۔ کئی بار آکر سروے کر کے گئے کہ اس قبرستان کو ٹھیک کرائیں گے۔ مگر دوبارہ کوئی نہیں آتا۔ قبریں خستہ حال ہو چکی ہیں۔ جھاڑیوں کو کتنا کاٹیں۔ بے روزگار ہونے پر گھریلو اخراجات کیلئے مرد گورکن رکشے چلاتے ہیں اور خواتین چوکیداری کرتی ہیں۔
مہناز بی بی کا کہنا تھا کہ قبرستان میں راتوں کو کالے علم کرنے والے آجاتے ہیں۔ جو چلہ کشی کرتے ہیں اور طرح طرح کی ڈرائونی آوازیں نکالتے ہیں کہ کوئی اس جانب نہ آئے۔ جبکہ پاک کالونی جہاں آباد میں گینگ وار گروپوں کے خلاف آپریشن ہو تو ادھر ادھر میوہ شاہ قبرستان میں روپوشی کرتے ہیں۔ اب نہتے گورکن اور خواتین ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ لہٰذا جو میڈیا والے آتے ہیں
ان کو معلومات فاہم کرنے کے دوران بتاتے ہیں کہ قبرستان میں سر کٹا گھومتا ہے۔ رات کو مرکزی گیٹ کے دائیں جانب رہائشی کوارٹرز کے آگے نظر آتا ہے اور جھاڑیوں میں آگے گھومتا ہے۔ اسی طرح چڑیلیں، جن بھوت، روحوں سے ڈراتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر اتنی سنسنی خیز باتیں پھیلائیں کہ گینگ وار کے کارندے اور کالے علم کرنے والے ادھر نہ آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر سات پشتوں سے خدمات انجام دینے والوں کو سندھ حکومت معاوضہ دے اور رہائش کے لیے کوارٹرز بنا کر دے۔ تاکہ اس قدیم قبرستان کو بچایا جا سکے۔ اس قبرستان تک رسائی ویسے بھی مشکل ہے کہ مسلح گینگ وار کارندے آنے جانے والوں کی تلاشی لے کر موبائل فون، رقم کیمرے چھین لیتے ہیں۔