پولیس کو بھی پابند کر دیا، واپڈا کے کہنے پر کسی رکن کے خلاف مقدمہ درج نہ کیا جائے، فائل فوٹو
پولیس کو بھی پابند کر دیا، واپڈا کے کہنے پر کسی رکن کے خلاف مقدمہ درج نہ کیا جائے، فائل فوٹو

کے پی کابینہ اور اسمبلی اراکین میں اختلافات بڑھ گئے

محمد قاسم:
صوبہ خیبرپختون میں صوبائی حکومت کے وزرا اور پی ٹی آئی اراکین کے درمیان اختلافات بڑھنے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی وزرا کی کرسیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں اور انہوں نے اپنی وزارتیں بچانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔

وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کئی وزرا کو ہٹانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جمعہ کے روز پارلیمانی اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے ایم پی ایز نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں وزرا کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان ارکان نے وزرا پر تعاون نہ کرنے کا الزام عائد کیا کہ ان کیلئے عوام کے کام کرانا مشکل ہو گیا ہے۔ وزرا کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔

اراکین نے سب سے زیادہ شکایات صوبائی وزیر صحت کے خلاف کیں کہ ان کے اضلاع میں وزارت صحت سے متعلق تبادلوں اور تعیناتیوں میں ان کی بات نہیں مانی جارہی۔ اس پر وزیر صحت نے جواب دیا کہ انتظامی امور کے مطابق تبادلوں اور تعیناتیوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ایک طرف میرٹ کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب نااہل لوگوں کی سفارشیں کی جا رہی ہیں۔

وزیراعلیٰ کا آرڈر ہے کہ سیاسی بنیادوں پر کوئی تعیناتی اور تبادلے نہیں ہوں گے۔ جبکہ اراکین اپنے رشتہ داروں کو اعلیٰ عہدے دلانا چاہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ حکم کریں تو ہم ایسا کریں گے۔ قاسم علی شاہ نے اراکین کی شکایات کے جواب میں مزید بتایا کہ ’’ہم عام محافل میں میرٹ اور انصاف کی بات کرتے ہیں۔ جبکہ خلوت میں اپنے رشتہ داروں کو من پسند عہدے بغیر میرٹ کے دینے کیلئے دبائو ڈالتے ہیں۔

اراکین اسمبلی نے وزیر خوراک طاہر شاہ طورو پر بھی الزام عائد کیا کہ انہوں نے من پسند زمینداروں سے گندم خریدی۔ سب سے زیادہ اپنے آبائی ضلع مردان سے تعلق رکھنے والے زمینداروں سے خریداری کی گئی۔ وزیر خوراک نے گندم کی خریداری میں شفافیت نہیں رکھی۔ اضلاع میں لگائے گئے فوڈ انسپکٹرز کے حوالے سے مقامی صوبائی اسمبلی اراکین کے ساتھ مشورہ نہیں کیا گیا۔ وزیر آبپاشی عاقب اللہ ممبران سے ملنے سے انکار کرتے ہیں۔ وزیر جنگلات فضل حکیم سے وزارت نہیں چل رہی ہے۔ محکمہ کے اندر جنگلات اور جنگلی حیات سے متعلق کارکردگی نہ ہونے سے پارٹی کو نقصان ہو رہا ہے۔

اراکین نے نگراں حکومت کے دور میں لگائے گئے ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کے تبادلوں کا بھی مطالبہ کیا۔ جس پر وزیراعلیٰ امین گنڈاپور نے اراکین کو بتایا کہ جب تک نئے چیف سیکریٹری نہیں آتے۔ تبادلے ممکن نہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اراکین کی شکایات پارٹی چیئرمین عمران خان کے سامنے رکھی جائیں گی۔ اور ایسے وزرا کو ہٹایا جائے گا جو عمران خان کے ویژن کے مطابق کام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ان وزرا میں وزیر جنگلات فضل حکیم، وزیر صحت قاسم علی شاہ، وزیر خوراک ظاہر شاہ طورو سمیت 2 مشیروں کو ہٹانے کا امکان ہے۔ کیونکہ پارٹی کے مرکزی رہنما اپنے عزیزوں کو وزارتیں دینے کیلئے بعض ممبران کو وزرا کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پارٹی کے بعض مخلص رہنمائوں نے وزیراعلیٰ کو مشورہ دیا ہے کہ تین ماہ کے اندر اندر وزرا کی کارکردگی کے حوالے سے جائزہ لینا خطرناک ہے۔ 6 ماہ سے ایک برس کا ٹائم دیا جائے۔

اگر وزرا ڈیلیور کرنے میں ناکام رہیں تو ان کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر اراکین اسمبلی کی ذاتی خواہشات پر وزرا کو ہٹانے کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر تین ماہ بعد شکایتوں کا انبار لگنا شروع ہو جائے گا اور حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا۔ اگر اراکین کے غیرقانونی اور ذاتی امور کیلئے وزرا کو ہٹایا گیا اور ذاتی کاموں کو ترجیح ملنا شروع ہو گئی تو پھر پارٹی ورکرز مایوس ہو جائیں گے۔