سید حسن شاہ:
صدر کے علاقے میں واقع ارتداد خانے پر شعائر اسلام استعمال کرنے اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے سے متعلق کیس میں قادیانیوں کی پیروی کرنے والے دو وکلا کا جذبہ ایمانی جاگ گیا۔ مرزائیوں کی سازشوں سے آگاہ ہونے کے بعد پر کشش معاوضہ ٹھکراکر پہلے ریاض پھلپوٹو ایڈووکیٹ اور پھر وکیل عامر رضا نقوی نے بھی نہ صرف قادیانیوں کا کیس لڑنے سے انکار کر دیا۔ بلکہ وکالت نامے بھی واپس لے لئے۔
واضح رہے کہ پریڈی اسٹریٹ پر ملازمت کرنے والے شہری عبدالقادر پٹیل اشرفی نے 2022ء میں تھانہ پریڈی پولیس کی جانب سے مقدمہ درج نہ کرنے پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں درخواست جمع کرائی تھی۔ جس میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ پولیس، بچو بھائی اسٹریٹ صدر میں واقع قادیانی عبادت گاہ کے خلاف مقدمہ درج نہیں کررہی۔ لہذا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے۔
29 ستمبر 2022ء کو عدالت نے پولیس کو درخواست گزار کا بیان ریکارڈ کرتے ہوئے مقدمہ اندراج کا حکم دیا۔ جس پر عبدالقادر پٹیل اشرفی کی مدعیت میں تھانہ پریڈی میں مقدمہ الزام نمبر 913/2022 درج کیا گیا۔ مدعی نے الزام عائد کیا تھا کہ ’میں پریڈی اسٹریٹ میں ملازمت کرتا ہوں اور ختم نبوت پر قرآن و حدیث کے عین مطابق ایمان رکھتاہوں جبکہ آئین پاکستان کا مکمل احترام کرتا ہوں۔ آئین و قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر قانونی چارہ جوئی کا بھی حق رکھتا ہوں۔
9 اگست 2022ء بروز جمعہ دوپہر تقریبا ایک بجے تھانہ پریڈی کی حدود سے گزر رہا تھا کہ میں نے ایک عمارت دیکھی اور میں اس میں نماز پڑھنے کیلئے جانے لگا تو پتہ چلا کہ یہ قادیانی عبادت گاہ ہے۔ میں نے اس پر علمائے کرام کو آگاہ کیا اور 11 اگست 2022ء کو متعلقہ تھانہ پریڈی میں جاکر اطلاع دی کہ قادیانیوں نے مسلمانوں کے دینی جذبات کو مجروح کرنے کیلئے بدنیتی سے اسلام اور آئین پاکستان کے خلاف نامعلوم ملکیتی پلاٹ 19 بچو بھائی اسٹریٹ عبداللہ ہارون روڈ نزد دارالاسلام مسجد صدر کراچی پر غیر قانونی طریقے سے گنبد، مینار اور محراب نما دروازے والی عمارت بنا رکھی ہے۔ جو کسی بھی دیکھنے والے کو مسجد معلوم ہوتی ہے۔
قادیانی مذکورہ بالا جگہ پر مسلمانوں کی طرح عبادت کرتے اور کھلی ارتدادی سرگرمیاں کرتے ہیں۔ جس سے کئی سادہ لوح مسلمان دھوکا کھا چکے ہیں اور نمازوں کے ساتھ نماز جمعہ تک ادا کرنے چلے جاتے ہیں۔ مذکورہ عبادت گاہ جن کمیٹی ممبران کے ماتحت چلائی جارہی ہے۔ ان میں کورٹ میں پیش کیے گئے پولیس بیان کے مطابق صباحت احمد، سبحان اور عبدالرشید سمیت دیگر ملزمان نے مسلمانوں کی دل آزاری کی نیت سے آئین شکنی کرتے ہوئے مسجد نما عبادت گاہ بناکر اس میں مسلمانوں کی طرح عبادت کرکے اور قادیانیت کی تبلیغی سرگرمیاں کرکے بجرم دفعہ 298-B/298-C/34 کا ارتکاب کیا ہے اور دستور پاکستان 1973-74 میں کافر قرار دیئے جانے کے باوجود اپنی سرگرمیاں اسلامی لبادہ اوڑھ کر جاری رکھے ہوئی ہیں۔
گزارش ہے کہ مذکورہ ملزمان اور دیگر انتظامی کمیٹی و اراکین کے خلاف اور ناجائز عمارت کے خلاف مقدمہ کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ اس کے علاوہ مذکورہ عمارت سے شعائر اسلام یعنی گنبد، مینار و محراب وغیرہ کو منہدم کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ اس کے علاوہ بھی جمشید کوارٹر میں واقع قادیانی ارتداد خانے کے خلاف مدعی محمد احمد کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
قادیانی ارتداد خانوں پر مقدمات درج ہونے کے بعد وہاں کے منتظمین صباحت احمد و دیگر ملزمان نے اپنے مقدمات کی پیروی کیلئے وکیل علی احمد طارق ایڈووکیٹ کی خدمات لیں۔ جب علی احمد طارق عدالت میں پیش ہوئے دستاویزات جمع کرائیں تو اس میں علی احمد طارق نے اپنے نام کے ساتھ اپنی ذات سید درج کی تھی۔ تاہم یہ وکیل قادیانی ہے۔ جس پر وکیل محمد اظہر خان ایڈووکیٹ کی مدعیت میں تھانہ سٹی کورٹ میں مقدمہ الزام نمبر 54/2023 درج کیا گیا۔ مدعی نے شکایت درج کراتے ہوئے بتایا کہ ’27 اپریل 2023ء کو میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی کی عدالت میں کیس نمبر 32/2023 میں پیش ہوا تھا تو وہاں پر ملزم صباحت کی جانب سے ایک وکیل صبح 9 بجکر 40 منٹ پر پیش ہوا اور وکالت نامہ جمع کرایا۔ جس میں اس نے اپنا نام سید علی احمد طارق تحریر کیا ہوا تھا۔
جبکہ یہ وکیل قادیانی ہے۔ اس نے کورٹ میں جان بوجھ کر خود کو سید ظاہر کیا۔ جب میں نے کورٹ کے باہر اس سے پوچھا تو اس نے کہاکہ میں ایک سچا مسلمان اور سید ہوں۔ یہ الفاظ وہاں پر موجود وکلا جن میں غلام اکبر جتوئی، اعجاز احمد سومرو اور دیگر وکلا نے سنا۔ لہذا میں درخواست کرتا ہوں کہ ملزم علی احمد طارق کے خلاف زیر دفعہ 298 بی اور سی کے تحت مقدمہ درج کیا جائے‘۔ مقدمہ درج ہونے کے وکیل قادیانی وکیل علی احمد طارق کو پولیس کی جانب سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
قادیانیوں کے خلاف درج مقدمات کی گزشتہ دو برس کے دوران سٹی کورٹ کی عدالتوں میں تقریباً 50 سے زائد سماعتیں ہوچکی ہیں۔ جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں بھی قادیانیوں کی جانب سے مقدمہ خارج کرنے کی درخواست زیر سماعت ہے۔ بعدازاں ارتداد خانے کے منتظمین صباحت احمد و دیگر ملزمان نے الگ الگ اوقات میں دو وکلا ریاض پھلپوٹو اور عامر رضا نقوی کی خدمات حاصل کی تھیں۔
گزشتہ ہفتے سندھ ہائی کورٹ میں قادیانیوں کی جانب سے مقدمہ خارج کرنے کی درخواست کی سماعت کے دوران ان کے وکیل عامر رضا نقوی نے قادیانیوں کا کیس لڑنے سے انکار کردیا اور اپنے وکالت نامے سے دستبردار ہوگئے۔ ان سے دو ماہ قبل ریاض پھلپوٹو ایڈووکیٹ نے بھی اس کیس سے ہاتھ اٹھالئے تھے۔ یہ سب کیسے ہوا؟ وہ کون سی بات تھی جب دونوں وکلا نے محسوس کیا کہ چند ہزار کی فیس کی خاطر انہوں نے انتہائی غلط راستے کا انتخاب کیا ہے۔
اس حوالے سے اہلسنت ہیلپ ڈیسک کے ترجمان محمد شاہد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ قادیانیوں کی جانب سے اپنے ارتداد خانوں پر شائر اسلام کا استعمال کیا جارہا تھا۔ جیسے گنبد، مینار اور دیگر اسلامی شعائر کا استعمال ہو رہا تھا۔ جس سے مسلمانوں کو گمراہ کیا جارہا تھا۔ اس پر ہم نے ان کے خلاف پریڈی اور جمشید کوارٹر تھانوں میں مقدمات درج کروا رکھے ہیں۔ جو سٹی کورٹ میں عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ جبکہ قادیانیوں نے سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ خارج کرنے کی درخواست بھی جمع کرا رکھی ہے۔ جہاں ان کے دو وکلا پیروی سے انکار کرچکے ہیں اور انہوں نے جذبہ ایمانی کے تحت اپنے وکالت نامے بھی واپس لئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اہلسنت ہیلپ ڈیسک کے وکلا کی ٹیم ہے۔ جو ہماری طرف سے عدالتوں میں پیش ہوتی ہے۔
ہمارے وکلا کی ٹیم کی جانب سے قادیانیوں کی پیروی کرنے والے ان وکلا سے بات کی گئی تھی اور انہیں منکرین ختم نبوت کی سازشوں اور ان کی ارتدادی سرگرمیوں سے تفصیلاً آگاہ کیا تھا۔ جس سے وہ کافی متاثر ہوئے اور انہیں احساس ہوا کہ چند ہزار کی فیس کی خاطر انہوں نے انتہائی غلط راستے کا انتخاب کیا ہے۔ جبکہ انہوں نے اپنے وکالت نامے بھی واپس لے لئے اور یہ بھی کہا کہ وہ منکرین ختم نبوت کی وکالت نہیں کر سکتے۔