محمد علی :
بھارت کے ہندو انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی کے 3 ادوار میں صرف ایک مسلمان وزیر بنا۔ یہ خوش نصیب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما مختار عباس نقوی تھے۔ جنہوں نے 12 جولائی 2016ء سے 30 مئی 2019ء تک اقلیتی امور کی وزارت کا قلمدان سنبھالا۔ نریندر مودی نے اپنی تیسری کابینہ بھی تشکیل دے دی ہے۔ جس سے 2019ء کی کابینہ میں شامل ایک مسیحی رکن کو بھی ڈراپ کر دیا گیا ہے۔
مودی کی 30 رکنی کابینہ میں اقلیتوں کو نظر انداز کرنے پر بین الاقوامی میڈیا بھی حیران ہے۔ برطانوی اخبار کے مطابق نریندر مودی نے اپنی نئی اور مسلسل تیسری حکومت میں کابینہ کے تمام اہم وزرا کو ان کے قلم دانوں میں برقرار رکھا ہے۔ جس سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ انتخاباتی نتائج کے باوجود ہندوتوا نظریے پر عمل پیرا ہیں۔ مودی کی حکومت نے اعلان کیا کہ دفاع، خزانہ، داخلہ اور خارجہ امور میں 4 سینئر ترین وزرا ہی برقرار رہیں گے۔ جبکہ ان کی جماعت بی جے پی نے تجارت اور زراعت جیسی دیگر اہم وزارتیں بھی اپنے پاس رکھی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق بی جے پی نے 543 رکنی پارلیمنٹ میں 240 نشستیں حاصل کی ہیں اور 2014ء کے بعد پہلی بار اپنی واضح اکثریت کھوئی۔ تاہم وہ دو اتحادی جماعتوں جنوبی ریاست آندھرا پردیش کی تلگو دیشم پارٹی اور مشرقی ریاست بہار سے جنتا دل (یونائیٹڈ) پارٹی کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ ان کی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے پاس 293 نشستیں ہیں۔ جبکہ حکومت بنانے کیلئے 272 نشستوں کی ضرورت تھی۔
مودی نے کوئی بھی اہم وزارت اتحادیوں کو نہیں دی۔حکمراں اتحاد کے 293 ارکان پارلیمنٹ میں سے ایک بھی مسلمان، سکھ یا عیسائی نہیں۔ دی انڈپینڈنٹ کے مطابق مودی کو اپنی نئی کابینہ میں اقلیتی مسلم برادری کو جگہ نہ دینے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بھارت کی کل آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 14 فیصد سے زیادہ ہے اور ملکی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے کہ مرکزی کابینہ میں کوئی مسلم وزیر نہیں۔
ریاست تلنگانہ کی کاکتیہ یونیورسٹی میں معاشیات کے سابق پروفیسر وینکٹ نارائن کا کہنا ہے کہ مودی حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی کا فقدان اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اپنی غیر سیکولر سوچ کو جاری رکھیں گے اور ان کی اقلیت مخالف سیاست گزشتہ دو ادوار کی طرح واضح ہے۔ نارائن نے کہا کہ نریندر مودی سخت گیر ایجنڈے کے ساتھ حکومت نہیں چلا سکتے ورنہ حکومت گر جائے گی۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق مودی کے وزیراعظم بننے سے قبل اتحادیوں کو اہم قلم دان ملنے کی قیاس آرئیاں تھیں۔ جو غلط ثابت ہوئیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کابینہ کے انتخاب پر کچھ حلقوں میں غصہ ہو سکتا ہے۔ سول ایوی ایشن، فوڈ پروسیسنگ، سٹیل، مویشی پروری اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں سمیت دیگر وزارتوں میں کابینہ کی 30 میں سے صرف پانچ نشستیں اتحادیوں کو دی گئیں۔
بی جے پی نے کہا کہ وہ اپنے شراکت داروں اور ان کی امنگوں کا احترام کرتی ہے۔ لیکن یہ بھی کہا کہ تمام اتحادیوں نے مودی کو کھلی چھوٹ دی ہے۔ عرب نیوز کے مطابق وزیر برائے خارجہ امور کا قلمدان دوبارہ سنبھالنے والے جئے شنکر نے منگل کواخبار نویسوں کو بتایا کہ مودی کی خارجہ پالیسی چین کے ساتھ سرحدی مسائل کو حل کرنے اور پاکستان کے ساتھ دراندازی کے مسئلے کا حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کرے گی۔