محمد علی:
اسرائیل اور امریکا حماس کی قید سے مزید یرغمالیوں کو چھڑانے کیلئے ایک اور خفیہ منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ جنگ بندی منصوبہ پیش کرنے کی آڑ میں یرغمالیوں کا سراغ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس اثنا میں دونوں فریقین کی رضامندی کے باوجود سیز فائر کو لٹکایا جارہا ہے۔
اسرائیل اور امریکی انٹیلی جنس نے ماضی میں اسرائیلی یرغمالیوں کو حماس کی سرنگوں کے نیٹ ورک میں رکھنے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن اب انہیں معلوم ہوا ہے کہ حماس نے یرغمالیوں کو البرائج کیمپ، الشاطی اور النصیرات کیمپ میں ہی چھپا رکھا ہے۔
واضح رہے کہ 8 جون کو النصیرات کیمپ پر شدید بمباری کے بعد اسرائیل نے امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں کی مدد سے 4 یرغمالی رہا کرالیے تھے۔ تاہم یہ آپریشن عملاً ناکام رہا تھا۔ کیونکہ اس وقت علاقے میں درجنوں اور قیدی بھی تھے۔ جنہیں حماس نے بمباری کے دوران ہی دوسرے ٹھکانوں پر منتقل کردیا تھا۔ البتہ اس دوران ایک صیہونی فوجی افسر اور کئی یرغمالی اسرائیلی بمباری میں ہلاک بھی ہوئے۔
آپریشن کے بعد حماس نے کہا تھا کہ تقریباً 120 یرغمال اب بھی اس کی قید میں ہیں اور وہ چاہے تو مزید اسرائیلیوں کو بھی قید کر سکتے ہیں۔ صیہونی فوج نے گو کہ جبالیہ کیمپ میں تباہ کن کارروائیاں کیں۔ لیکن امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس اس بات پر متفق ہیں کہ اس کیمپ میں کسی یرغمالی کو نہیں رکھا گیا۔ جبالیہ کیمپ حماس کا مضبوط گڑھ ہے اور حماس کے القسام بریگیڈز کی جانب سے اسے اسرائیل فوج کے خلاف اسٹرٹیجک حملوں کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جبالیہ کیمپ میں ایک ماہ کے دوران یعنی صرف مئی میں 50 سے زائد اسرائیلی ہلاک و زخمی ہوئے۔ جس کے بعد قابض فوج یہاں سے انخلا کر گئی تھی۔ دوسری جانب 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ میں جاری صیہونی درندگی میں اب تک 21 ہزار فلسطینی بچوں کے لاپتہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بچوں کے حقوق اور فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم سیو دی چلڈرن کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کے نتیجے میں جو ہزاروں بچے لاپتہ ہیں وہ یا تو تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہیں یا انہیں کسی اجتماعی قبر میں دفنا دیا گیا ہے یا پھر انہیں اسرائیلی فوجی گرفتار کرکے لے گئے ہیں۔ سیو دی چلڈرن کے نمائندے کا کہنا ہے کہ یہ ہزاروں بچے دوران جنگ اپنے والدین سے بچھڑے اور ان میں بچوں کی ایک نامعلوم تعداد ہے۔ جنہیں جبری لاپتہ کرکے غزہ سے باہر لے جایا گیا۔ جہاں ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ تنظیم کے نمائندے کے مطابق غزہ میں جنگ کی صورتحال میں معلومات جمع کرنا اور ان کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔ مگر کم از کم 17 ہزار بچے اپنے خاندانوں سے بچھڑ گئے ہیں۔ جبکہ 4 ہزار بچے گھروں اورعمارتوں کے ملبے تلے دبے ہیں۔