سوشل میڈیا ونگ نے مفاد پرستوں کیخلاف مہم چلانے کا فیصلہ کرلیا، فائل فوٹو
سوشل میڈیا ونگ نے مفاد پرستوں کیخلاف مہم چلانے کا فیصلہ کرلیا، فائل فوٹو

پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات شدت اختیار کرگئے

محمد قاسم :
پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات میں شدت آگئی ہے۔ کارکنان نے اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو عمران خان کی رہائی کیلئے کوششیں نہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پارٹی کے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے انہیں باہر کے حالات اور پارٹی کے حوالے سے صحیح آگاہ نہیں کیا جارہا۔ جس کی وجہ سے پارٹی کے پرانے رہنمائوں میں اشتعال غصہ پایا جاتا ہے۔قوی امکان ہے کہ پارٹی کے بعض ایم این ایز کچھ عرصہ بعد اسمبلی سے استعفیٰ دے دیں۔

ذرائع کے مطابق پارٹی کے مخلص رہنمائوں کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے اور پارٹی پر وکلا کا کنٹرول مضبوط ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے شہریار آفریدی، شاندانہ گلزار، شیر افضل مروت، علی محمد خان، اسد قیصر، زرتاج گل، مراد سعید اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سمیت اہم رہنمائوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ عمران خان کی رہائی کیلئے وکلا نے جو وعدے کیے تھے اور جو کچھ بتایا تھا۔ اس پر 5 فیصد بھی عمل نہیں ہو سکا۔ جن وکلا کو پارٹی میں عہدے دیئے گئے۔ انہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ نہ صرف یہ کہ ان کے کلائنٹس میں اضافہ ہوا اور وہ کروڑوں میں کھیل رہے ہیں۔ بلکہ عمران خان کی وجہ سے وہ ٹی وی شوز میں بھی نظر آرہے ہیں۔

ذرائع کے بقول تین ایسے وکیل بھائی ہیں۔ جن کے پاس کام نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اب ان کے پاس پارٹی رہنمائوں کیلئے وقت نہیں اور تینوں ٹی وی شوز میں شرکت کر رہے ہیں۔ جبکہ پارٹی کیلئے ان کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ پہلے ان وکلا بھائیوں نے کارکنوں کے کیسز کی مفت میں پیروی کر کے عمران خان کا قرب حاصل کیا اور اب کارکنوں کے کیسوں کے بارے میں فیس مانگی جارہی ہے۔ پارٹی کے اندر ان کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق سابق وزیر قانون بابر اعوان بھی صرف شریف خاندان کے خلاف بیانات پر اکتفا کر رہے ہیں۔ جبکہ پی پی پی قیادت کے خلاف وہ خاموش ہیں۔ پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں کے مطابق بابر اعوان شریف فیملی کیخلاف اپنے پرانے حساب برابر کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ صیل کرکے اپنی نااہلی ختم کرائیں اور قومی اسمبلی یا سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لیں۔ جس کے بعد ان کی نقل و حرکت میں آسانی ہوگی۔ ان کو گرفتار کرنے کیلئے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی سے اجازت لینا ضروری ہے۔

ذرائع نے یہ بھی عمران خان کو باور کرایا ہے کہ ان کی پارٹی کے کارکنان مایوس ہو گئے ہیں اور پارٹی اختلافات کا شکار ہے۔ پارٹی میں کئی گروپ بن گئے ہیں۔ پرویز الٰہی نے رہائی کے بعد خاموشی اختیار کرلی ہے۔ جبکہ پارٹی کے موجودہ رہنما ان پر بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔

بعض ذرائع کے مطابق پرویز الٰہی کا خاموش رہنا ان کی مجبوری ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ اگر وہ جیل میں زیادہ عرصہ رہے تو پارٹی ختم ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اپنے وکیل علی ظفر کے توسط سے اپنی نااہلی ختم کرنے اور انتخابات میں حصہ لینے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔

ذرائع کے مطابق شہریار آفریدی کی جانب سے قومی اسمبلی میں یہ کہنا کہ شاید یہ ان کا آخری خطاب ہو، نے پی ٹی آئی کے اہم رہنمائوں کو بے چین کر دیا ہے۔ کیونکہ شہریار آفریدی کی جانب سے عمران خان کی عدم رہائی کی صورت میں قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں ایک درجن سے زیادہ استعفے آسکتے ہیں۔ پارٹی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر اور جنرل سیکریٹری عمر ایوب کے خلاف پارٹی میں بغاوت ہو سکتی ہے۔