محمد قاسم :
صوبائی دارالحکومت پشاور میں تین بچوں کی تشدد زدہ لاشیں ملنے سے سخت خوف و ہراس ہھیل گیا۔ لوگوں نے بچوں کو گھروں سے باہر جانے سے روک دیا۔ پی ٹی آئی حکومت کے قائم ہوتے ہی صوبائی دارالحکومت سمیت پورا صوبہ بدامنی کی لپیٹ میں آگیا۔ پشاور میں چوبیس گھنٹوں کے دوران سولہ افراد قتل ہو چکے ہیں۔
وزیراعلیٰ اور کابینہ کے اراکین سیاست، سیاست کھیل رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پشاور میں 24 گھنٹوں کے دوران تین بچوں سمیت 16 افراد کے قتل اور متعدد کے زخمی ہونے کے بعد شہر بھر میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ پولیس کے مطابق بڈھ بیر میں چچا زاد بھائیوں نے گھر میں گھس کر ایک ہی خاندان کے 9 افراد کو قتل کر دیا۔ جن میں 5 کمسن بچے اور 4 خواتین شامل ہیں۔ ملزمان نے گھر میں بڑے افراد کی غیر موجودگی میں یہ قدم اٹھایا۔ پولیس کے مطابق دونوں خاندانوں میں رقم اور جائیداد کا تنازعہ چل رہا تھا۔ لیکن بچوں اور خواتین کا قتل پہلی بار ہوا ہے۔ پھر بچوں اور خواتین کو قتل کرنا پشتون معاشرے میں بزدلی کی علامت ہے۔ علاقے میں ایک ہی گھر سے 5 افراد کے جنازے اٹھ جانے سے لوگوں میں خوف کے ساتھ ساتھ غصہ بھی پایا جاتا ہے۔
علاقے کے عمائدین نے پولیس پر کوتاہی کا الزام عائد کیا ہے کہ پولیس گزشتہ 2 ماہ سے بڈھ بیر میں ہونے والے جرائم روکنے میں ناکام ہے۔ علاوہ ازیں پنجرہ بازار کے وسط میں گاڑی پر فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق ہوئے۔ اسی طرح بڈھ میں شیخ محمدی کے علاقے میں کھیتوں کو پانی دینے کے تنازعے پر فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق، جبکہ ایک زخمی ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ علاقے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ علاقہ مکینوں کے مطابق پولیس ناکوں پر گاڑیوں سے نقدی وصول کر رہی ہے۔
جبکہ جرائم روکنے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ علاقے میں خوف و ہراس ہے اور پولیس کی کوتاہی کی وجہ سے بڈھ بیر میں شدت پسند بھی قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب اپنے علاقے میں اس قتل و غارت کے باوجود ایم این اے شاندانہ گلزار اور پی ٹی آئی کے ایم پی ایز بجلی کے نام پر سیاست کر رہے ہیں۔ مقامی عمائدین کے مطابق انہوں نے شاندانہ گلزار اور دیگر اراکین کو کئی بار اس حوالے سے آگاہ کیا ہے۔ لیکن اب تک کرپٹ پولیس اہلکار بڈھ بیر تھانے میں تعینات ہیں اور جرائم پیشہ افراد آزاد گھوم رہے ہیں۔ سب سے دلخراش واقعہ پشاور کے پوش ایریا حیات آباد کے سامنے اعلیٰ افسران کے رہائشی علاقے ریگی لکمہ میں سامنے آیا۔ جس نے پورے پشاور کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
گزشتہ روز 8 سے 9 سال تک کے تین بچے کھیل کود کی غرض سے گھروں سے باہر کھیل رہے تھے اور پھر اچانک غائب ہو گئے۔ جس کی ایف آئی آر ناصر باغ پولیس اسٹیشن میں درج کر لی گئی۔ لیکن پولیس کی جانب سے بازیابی کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور بدھ کی صبح ایک برساتی نالے سے تینوں بچوں کی تشدد شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ جس سے پورے علاقے میں کہرام مچ گیا ہے اور لوگوں نے اپنے بچوں کو گھروں سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ بچوں کی لاشیں ملنے پر سوشل میڈیا پر حکومت اور پولیس پر شدید تنقید ہو رہی ہے اور حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے کہ حکومت کو سیاست کے کھیل سے فرصت نہیں اور صوبہ میں بدامنی پھیل رہی ہے۔
بچوں کے لواحقین کے مطابق اگر پولیس بروقت کارروائی کرتی تو بچوں کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ لیکن پولیس نے روایتی انداز میں اس کیس کو اغوا برائے تاوان اور بچوں کے خود کہیں جانے کا اندازہ لگاتی رہی۔ دوسری جانب بدامنی پھیلنے کے بعد سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی پر شدید تنقید ہو رہی ہے اور علی امین گنڈاپور اور مریم نواز کی حکومت کا موازنہ کیا جارہا ہے۔ مریم نواز کے خلاف پولیس یونیفارم پر مذاق کی ویڈیو شیئر کر کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو طعنے دیئے جارہے ہیں کہ مریم نواز نے جرائم میں کمی کر دی۔ جبکہ علی امین جرائم میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔