اپنے بہنوئی عمران کے دور حکومت میں پاکستان میں پرکشش نوکری حاصل کی، فائل فوٹو
 اپنے بہنوئی عمران کے دور حکومت میں پاکستان میں پرکشش نوکری حاصل کی، فائل فوٹو

بشریٰ کی بہن مریم وٹو کو زور کا انقلاب آنے لگا

امت رپورٹ :
بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کی بڑی بہن مریم ریاض وٹو کو بڑے زور کا انقلاب آرہا ہے۔ وہ اپنے بہنوئی عمران خان کی رہائی کے لیے فیصلہ کن تحریک نہ چلانے پر نا صرف پی ٹی آئی قیادت کو طعنے مارہی ہیں بلکہ کارکنوں کو اشتعال بھی دلارہی ہیں کہ ایسے ٹھنڈے ٹھار پارٹی رہنماؤں کا گریبان پکڑیں۔ اور اگر یہ پارٹی رہنما عملی طور پر میدان میں آنے سے مسلسل گریزاں رہتے ہیں تو پھر کارکنان اپنے طور پر سڑکوں پر نکلیں۔ ملک میں ایک اور 9 مئی کرانے کی خواہش مند مریم وٹو خود دبئی میں بیٹھی ہیں اور پارٹی کے نوجوانوں کو دوبارہ اس آگ میں جھونکنے کی کوشش کر رہی ہیں جس میں کودنے والے درجنوں نوجوانوں کو اس وقت ملٹری ٹرائل کا سامنا ہے اور ان میں سے بیشتر کے گھر والوں کو پی ٹی آئی نے بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے۔ مریم وٹو کینیڈین شہری ہیں اور اپنی فیملی کے ہمراہ دبئی میں لگژری لائف گزار رہی ہیں۔ وہ اپنی بہن اور بہنوئی کی رہائی کے لیے پارٹی کے نوجوانوں کو تو ایندھن بننے کے لیے اکسارہی ہیں، لیکن احتجاجی تحریک کے لیے نہ خود پاکستان آنا چاہتی ہیں اور نہ اپنے بچوں کو بھیجنا چاہتی ہیں۔

پچھلے چار پانچ ماہ سے مریم وٹو اپنی بہن اور بہنوئی کی رہائی کے نام پر نوجوانوں کو اکسانے کے لیے بہت زیادہ سرگرم ہیں اور اس کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کر رہی ہیں۔ صرف یہی نہیں، وہ اپنے ایکس (ٹویٹر) اکاؤنٹ پر ریاستی اداروں اور اس سے وابستہ اہم شخصیات کے خلاف زہر بھی اگل رہی ہیں۔ اس وقت موصوفہ پی ٹی آئی کی اوورسیز سوشل میڈیا ٹیم کا لازمی حصہ بنی ہوئی ہیں اور پی ٹی آئی اوورسیز سوشل میڈیا ٹیم کی تقریباً ہر ریاست مخالف پوسٹ اور ٹویٹ کو ری پوسٹ کر رہی ہیں۔

دلچسپ امر ہے کہ مریم وٹو کے پاس پی ٹی آئی کا کوئی عہدہ نہیں لیکن کسی پارٹی رہنما کی جرأت نہیں کے ان کی لعن طعن کا جواب دے سکے۔ سب بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں کہ سابق خاتون اول کی طاقت ور بہن سے کون متھا لگائے۔ قریباً دو ماہ قبل مریم وٹو نے دھمکی لگائی ’’مائنس عمران پارٹی پر کمپرومائز کرنے والے زیادہ دیر عہدوں پر نہیں رہ سکتے، آخرکار خان صاحب باہر آجائیں گے اور ان سب کو جانا ہوگا‘‘

اپنے انٹرویو میں بانی پی ٹی آئی کی خواہر نسبتی کا پارٹی وکلا اور رہنماؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مزید کہنا تھا ’’عمران خان کے کیسز کے حوالے سے انصاف میں تاخیر پر آواز نہیں اٹھائی جا رہی۔ ججز کے خط پر بھی کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔ ورکر سب کچھ دیکھ رہا ہے۔‘‘ مریم وٹو ورکرز کو جس طرح پارٹی رہنماؤں کے خلاف بھڑکارہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں کسی بھی پارٹی رہنما اور وکیل کو ورکرز کے ہاتھوں نقصان پہنچنا خارج ازمکان نہیں۔ اس کا تازہ مظاہرہ دو روز پہلے دیکھنے میں آیا جب عدت نکاح کیس میں عمران خان اور بشریٰ کی اپیلیں مسترد ہونے پر پی ٹی آئی کارکنان نے عمر ایوب اور فیصل جاویدکو گھیرلیا۔ ورکرز نے انہیں سڑکوں پر نہ آنے کے طعنے دیے۔

اس واقعہ کی وائرل ویڈیو میں ایک دھمکی آمیز آواز بہت واضح تھی ’’اگر خان صاحب کوکچھ ہوا تو لوگ پارٹی لیڈر شپ کو نہیں چھوڑیں گے‘‘ یہ آواز پی ٹی آئی اسلام آباد کے ایک ورکر حیدر سعید کی تھی۔ مریم وٹو نے اس واقعہ سے متعلق اپنے ایکس اکاؤنٹ پر جو پوسٹ کی وہ جلتی پر آگ ڈالنے کے مترادف تھی۔ انہوں نے لکھا ’’بدقسمتی سے اگر پی ٹی آئی کے رہنما، عمران خان اور بشریٰ بی بی سمیت دیگر اسیر کارکنوں کو باہر نکالنے میں ناکام رہے تو ان کے لیے صورت حال مزید خراب ہو جائے گی۔‘‘ صرف یہی نہیں مریم وٹو نے ورکر حیدر سعید کی یہ پوسٹ بھی ری پوسٹ کی جس میں وہ اپنی دھمکی والی ویڈیو اور اپ لوڈ کرکے استفسار کررہا ہے کہ ’’کیا میں نے کچھ غلط بولا ہے؟‘‘

اب یہ رپورٹس سامنے آرہی ہیں کہ تحریک انصاف نے عمر ایوب سے ہاتھاپائی کرنے والے کارکنوں کی رپورٹ تیار کر لی ہے جو عمران خان کو پیش کی جائے گی۔ اس رپورٹ میں عمر ایوب سے ہاتھاپائی کرنے والوں کو شیر افضل مروت کے کارکنان قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ عمر ایوب کے مخالف تصور کیے جانے والے شیر افضل مروت نے ان کے استعفیٰ کا خیرمقدم کرتے ہوئے شبلی فراز سے بھی مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ اگرچہ پارٹی کے چند رہنما شیر افضل مروت کے ساتھ ہیں۔ تاہم بڑی تعداد ان کے خلاف ہے۔

مریم وٹو نے بھی شیر افضل مروت کے خلاف ایکس پر کی جانے والی پوسٹ کو اپنے آفیشل اکائونٹ سے ری پوسٹ کیا۔ جس میں شیر افضل مروت کو اسٹیبلشمنٹ کا ٹائوٹ قرار دیا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیر افضل مروت، مریم وٹو کی گڈ بک میں بھی نہیں۔

اپنی ہی پارٹی لیڈر شپ کے خلاف کارکنوں کو اشتعال دلانے، ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور ملک میں انارکی پھیلانے کی کوشش کرنے والی تریپن سالہ کینیڈین شہری مریم وٹو کا پاکستان سے صرف اتنا ہی تعلق ہے کہ جب ان کے جیجا جی عمران نیازی وزیراعظم تھے تو انہیں ہائر ایجوکیشن ڈویلپمنٹ ان پاکستان کے پروجیکٹ کوآرڈینیٹر کے طور پر رکھا گیا تھا اور وہ پرکشش ماہانہ تنخواہ وصول کرتی رہیں۔ جس کے بعد وہ دوبارہ دبئی چلی گئیں۔ ان کا برطانیہ آنا جانا لگا رہتا ہے جبکہ کینیڈین شہریت کی وجہ سے وہاں کی یاترا بھی کرتی ہیں۔

گزشتہ ماہ بھی وہ برطانیہ گئیں۔ جہاں اوورسیز پی ٹی آئی سپورٹرز کے ساتھ مل کر ریاست مخالف بیانیہ کو پروان چڑھایا۔ وہاں انہوں نے لیبر پارٹی کے سابق لیڈر جیرمی کوربن سے ملاقات کی۔ جیرمی کوربن نے ہی انہیں عمران خان سے اڈیالہ جیل ملاقات کے لئے برطانوی ارکان پارلیمنٹ کا وفد لے جانے کا مشورہ دیا تھا۔ برطانیہ میں اپنے قیام کے دوران مریم وٹو نے ایک گمراہ کن پریس کانفرنس بھی کی۔ جس میں بشری بی بی کو جیل میں زہر دئیے جانے کا پروپیگنڈا کیا۔ حا لانکہ خود سابق خاتون اول کے معالج ڈاکٹر عاصم اس جھوٹ کا پول کھول چکے ہیں۔ ڈھائی ماہ قبل انہوں نے بتایا تھا کہ ’’بشریٰ بی بی کو کھانے میں زہر دینے کے کوئی اثرات نہیں ملے۔ ان کے معدے میں جلن ہے لیکن ان کی طبیعت بہتر ہے۔‘‘ اس کے باوجود مریم وٹو اب بھی جھوٹا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔

یاد دلاتے چلیں کہ یہ مریم وٹو ہی تھیں جنہوں نے اپنی شادی شدہ بہن اور پانچ جوان بچوں کی ماں بشری مانیکا، کا عمران خان سے پہلی بار رابطہ کرایا تھا۔ یہ لگ بھگ دو ہزار سولہ کی بات ہے جب اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو دیوتا بنا چکی تھی۔ اور آج کے قیدی نمبر 804 کی شہرت کا سورج نصف النہار پر تھا۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اگلے الیکشن میں اقتدار عمران خان کی جھولی میں ڈال دیا جائے گا۔