عمران خان :
وزارت داخلہ کو کئی برسوں بعد پاکستان سے بیرون ملک بھیک مانگنے کیلئے جانے والوں کے خلاف مستقل بنیادوں پر کارروائی کا خیال آ ہی گیا۔ دنیا کے کئی ممالک میں پاکستان کی بدنامی کا سبب بننے والی اس مافیا کے خلاف کارروائیوں کیلئے حکومتی پالیسی پر کام شروع کر دیا گیا۔ جس کے تحت وزارت خارجہ کے ساتھ مل کر جلد ہی اس پالیسی کو نافذ کردیا جائے گا۔ اس عالمی گداگر مافیا کے خلاف پہلے مرحلے میں ان کے پاسپورٹ بلاک کرنے کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ جس کیلئے گزشتہ دنوں تمام ملکی ایئرپورٹس اور سرحدی چیک پوسٹوں پر ایران، عراق، سعودیہ، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا سمیت دیگر ممالک سے ڈیپورٹ ہوکر آنے والے بھکاریوں کا ڈیٹا جمع کیا گیا۔
’’امت‘‘ کو اسلام آباد ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وزارت داخلہ کے تحت پاکستان سے عمرہ، زیارتوں اور وزٹ ویزوں کی آڑ میں بیرون ملک جاکر بھیک مانگنے والے گروپوں کے خلاف ایک مربوط حکومتی پالیسی کے تحت کارروائی کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ یہ کارروائیاں تین حصوں پر مشتمل ہوں گی۔
پہلے حصے میں ڈیپورٹ ہو کر آتے ہی ان بھکاریوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا عمل شروع کردیا جائے گا۔ تاکہ مخصوص برسوں تک یہ افراد بیرون ملک کا دوبارہ سفر ہی نہ کرسکیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں گرفتار کرکے ایئر پورٹس سے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکلز میں مزید تفتیش کیلئے بھیجا جائے گا۔ جہاں ان کی باقاعدہ گرفتاری ظاہر کرکے مقدمات درج کیے جائیں گے اور انہیں بیرون ملک بھجوانے والے ایجنٹوں اور ٹریول ایجنسیوں کو نامزد کیا جائے گا۔ تحقیقات میں ان ایجنٹوں اور ٹریول ایجنسیوں کی معلومات حاصل کرکے ان کے خلاف بھی گرفتاریوں سے لے کر ان کے لائسنس منسوخ کرنے تک کی کارروائیاں کی جائیں گی۔ چونکہ زیادہ تر بھکاری راجن پور، جیکب آباد، رحیم یار خان اور گھوٹکی وغیرہ کی بیلٹ کے ریجن سے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں سے اس مکروہ دھندے میں ملوث بعض ٹریول ایجنسیوں کے مالکان اور ایجنٹوں کے خلاف بھی کارروائی آئندہ دنوں میں دیکھنے میں آئے گی۔
واضح رہے کہ ’’امت‘‘ میں ایک ہفتہ قبل اس گداگر مافیاکی سرگرمیوں اور ان کے انسداد کے حوالے سے حکومتی پالیسی کے فقدان پر تفصیلی اسٹوری شائع کی گئی تھی۔ جس میں نشاندہی کی گئی تھی کہ پاکستان کے مخصوص علاقوں سے کس طرح گداگر سعودیہ، ایران اور عراق کے مقدس مقامات پر عمرہ اور زیارتوں کی آڑ میں جاکر بھیک مانگتے ہیں اور اب اس مافیا نے انسانی اسمگلرز کی خدمات حاصل کرکے اپنی رسائی دیگر کئی ممالک تک وسیع کرنی شروع کردی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق اب اس معاملے میں کارروائی کیلئے وزارت داخلہ کے توسط سے وزارت خارجہ کو بھی آن بورڈ لیا گیا ہے۔ تاکہ سعودیہ، متحدہ عرب امارات، عراق، ایران اور ملائیشیا سمیت دیگر ممالک میں موجود پاکستانی سفارتخانوں کے ذریعے گرفتار اور ڈیپورٹ ہونے والے بھکاریوں کے کوائف وزارت داخلہ کو فراہم کرنے کا ایک مستقل نظام قائم کیا جاسکے۔ اس کیلئے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ میں ایک مخصوص سیکشن میں ڈیسک قائم کی جا رہی ہے۔ جن کے افسران مستقل بنیادوں میں باہم رابطے میں رہیں گے۔ جس کے نتیجے میں بیرون ملک گرفتار اور ڈیپورٹ ہونے والے بھکاریوں کا ایک ڈیٹا بینک بنتا رہے گا۔ جس کی روشنی میں اس مافیا کے خلاف مستقل بنیادوں پر کارروائیاں کرنے میں آسانی ہوگی۔
مختلف ایئر پورٹس پر تعینات ایف آئی اے امیگریشن کے افسران سے معلوم ہوا ہے کہ وزارت داخلہ کو ایمرجنسی پاسپورٹ پر ڈیپورٹ ہوکر آنے والے بھکاریوں کا ڈیٹا گزشتہ دنوں ارسال کردیا گیا ہے۔ جس کی روشنی میں ابتدائی طور پر 2 ہزار 400 سے زائد ان بھکاریوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ جو حالیہ سیزن میں یعنی حج کے دوران سعودی حکام کے ہاتھوں گرفتا ر کرکے پاکستان ڈیپورٹ کیے گئے۔ اسی پالیسی کے تحت ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکلوں کو بھی ٹاسک دیا جا رہا ہے کہ ڈیپورٹ ہوکر آنے والے بھکاریوں کو بھجوانے والے ایجنٹوں کا لازمی طور پر تفتیش میں سراغ لگایا جائے۔ تاکہ ساتھ ہی ان ایجنٹوں کے پاسپورٹ بھی بلاک کیے جاسکیں۔ اس اقدام کے ذریعے ٹریول ایجنٹوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ تاکہ وہ شہریوں کو عمرے اور زیارتوں پر بھجوانے سے قبل اس بات کی تصدیق کرلیں کہ وہ کسی بھکاری کو تو ویزہ نہیں لگوا کر دے رہے ہیں۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول موجودہ صورتحال میں ایک مربوط حکومتی پالیسی کی اشد ضرورت تھی۔ کیونکہ ڈیپورٹ ہوکر آنے والے بھکاریوں کے خلاف وہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے تحت مقدمات درج کرنے پر مجبور ہیں اور اس ضمن میں اب تک کوئی خصوصی قانون نہیں بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھکاریوں کو جاتے وقت روکنے میں بھی ان کو اس لئے مشکلات ہوتی ہیں کہ ان کے پاس ویزے اور پاسپورٹ سمیت ہر دستاویز اصل ہوتی ہے۔ تاہم اگر کوئی واضح پالیسی یا قانون نافذ ہوجائے تو انہیں بھکاریوں کے خلاف جاتے وقت بھی کارروائی کرکے انہیں روکنے میں آسانی ہوسکے گی۔
واضح رہے کہ اس معاملے کی سنجیدگی پہلی بار گزشتہ برس اس وقت سامنے آئی تھی جب ستمبر میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیوں کے سامنے یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ بھکاریوں کو بڑی تعداد میں غیرقانونی ذرائع سے بیرون ملک اسمگل کیا جاتا ہے۔ اور یہ بیرون ملک پکڑے گئے بھکاریوں میں سے 90 فیصد کا تعلق پاکستان سے ہے۔