عمران خان:
ایف بی آر افسران سے ملتی جلتی ای میلز، جعلی ایف بی آر لیٹرز اور جعلی سوشل ویلفیئر ویب سائٹس کے ذریعے ٹیکس دہندگان کے ساتھ اربوں روپے کے فراڈز میں 300 فیصد تک اضافہ ہوگیا۔ ان وارداتوں میں معمولی کمیشن کے عوض بھاری ٹیکس ری فنڈز کی لالچ دیئے جانے کے ساتھ واجب الادا انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے معاملات بھی کلیئر کرنے کے جھانسے دے کر شہریوں سے بھاری رقوم بٹوری جا رہی ہیں۔ گزشتہ برس ان فراڈیوں نے 1500 شہریوں کی شناخت اور ٹیکس گوشواروں کا ریکارڈ چوری کرکے ان کے ناموں پر ری فنڈز کلیم کرلیا، جس کے بعد یہ شہری ایف بی آر کے مقروض ہوگئے۔
ذرائع کے مطابق اس معاملے کا سب سے سنگین پہلو یہ ہے کہ ٹیکس دہندگان کاحساس مالیاتی ڈیٹا ایف بی آر کے مختلف فیلڈ فارمیشن دفاتر سے اس وقت لیک ہو رہا ہے جب ان کے کاروبار، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس کے حوالے سے واجب الادا رقوم کا حساب کتاب ہو رہا ہوتا ہے اور ان سے وصولیوں کے لئے انہیں مختلف دفعات کے تحت نوٹس یا اظہار وجوہ کے خطوط ارسال کرنے کے لئے تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ ٹیکس دہندگان کا ایسا حساس ڈیٹا جسے استعمال کرکے جعلساز انہیں بلیک میل کرسکتے ہیں، وہ مختلف نجی ٹیکس کنسلٹنٹس کے دفاتر سے بھی لیک ہو رہا ہے۔
ذرائع کے بقول اس پورے معاملے میں اب کئی نجی ٹیکس کنسلٹنٹ، ان کے کارندوں کے ساتھ بعض سابق ایف بی آر ملازمین اور ایف بی آر کے دفاترمیں کام کرنے والے پرائیویٹ لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں اور اس نیٹ ورک کی ہر انفارمیشن فروخت ہوتی ہے۔ زیادہ اہم اور کام میں آنے والی معلومات کے نرخ زیادہ ہوتے ہیں۔
ذرائع کے بقول جعلسازی کا سلسلہ چند برس قبل اس وقت شروع ہوا جب ایف بی آر کے تحت ملکی محصولات میں اضافے کے لئے زیادہ سے زیادہ شہریوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی نیت سے ایف بی آر میں براڈننگ آف ٹیکس بیس ڈائریکٹوریٹ جنرل کے تحت ایک بڑی مشق شروع کی گئی۔ اس مشق کے سلسلے میں حکومتی ہدایات پر نادرا سے ایک کروڑ 20 لاکھ شہریوں کا ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد مختلف بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سے ان صارفین کی جانب سے ادا کئے جانے والے بلوں کی مالیت کی چھان بین کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی صوبائی ایکسائز کے محکموں سے ان شہریوں کے ناموں پر موجود گاڑیوں اور جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کی گئیں۔ تمام نجی ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں سے موبائلوں کے زیادہ بل دینے والوں کا ریکارڈ لیا گیا۔ بڑے پرائیویٹ اور مہنگے اسپتالوں سے لاکھوں کا علاج کروانے والے شہریوں کا ڈیٹا لیا گیا۔ اس مشق میں ایف بی آر کی جانب سے ماہانہ لاکھوں روپے کے اخراجات کرنے والے ایسے شہریوں کا ڈیٹا نچوڑا گیا جو کہ خوشحال ہونے کے باجود انکم ٹیکس ادا نہیں کر رہے تھے۔
ذرائع کے بقول اس مشق کے بعد ایف بی آر کی جانب سے ملک بھر میں لاکھوں افراد کو ان کے ای میلز اور موبائل نمبروں پر انکم ٹیکس ادا کرنے اور ٹیکس دہندہ کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہونے کے لئے نوٹس ارسال کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ جس میں ان شہریوں کو ان کے اخراجات اور اثاثوں کی تفصیلات بتا کر ایف بی آر کے دفاتر طلب کرنے کے ساتھ مہلت دی جانے لگی۔ اسی دوران بعض جلعسازوں نے اس کا ناجائز فائدہ اٹھا نا شروع کردیا اور سائبر کرائم کی وارداتیں شروع کردیں۔
ان وارداتوں کے لئے جعلسازوں نے ایف بی آر، ریجنل ٹیکس آفسوں، لارج ٹیکس پیئرز یونٹ، ایف بی آر انٹیلی جنس کے دفاتر کی سرکاری ای میلز سے ملتی جلتی ای میلز بنائیں۔ ساتھ ہی ایف بی آر کے متعلقہ افسران کے نام، دستخط اور مہروں کی نقلیں تیار کرکے جعلی نوٹس ان ای میلز کے ذریعے شہریوں کو بھیجنے شروع کردیئے۔ لاتعداد شہری ان جعلسازوں کے جھانسوں میں آگئے کیونکہ انہیں جو معلومات ارسال کی جا نے لگیں وہ وہی تھیں جو ایف بی آر حکام کی جانب سے مختلف سرکاری اور نیم سرکاری اداروں سے جمع کی گئی تھیں۔ سرکاری اداروں کے ملتے جلتے ناموں کی ای میلز اور فون نمبر استعمال کرکے شہریوں کو دھوکہ دینے کی وارداتیں سائبر کرائمز کی اصطلاح میں ’’فشنگ ‘‘ کہلاتی ہیں۔
گزشتہ روز وفاقی ٹیکس محتسب آصف محمود جاہ کی سربراہی میں ہونے والی ایک تقریب میں مشیر برائے ریاستی امور اور وفاقی ٹیکس محتسب کے مشیر ڈاکٹر وقار کی جانب سے اعتراف کیا گیا کہ پاکستان کمپیوٹر ایمرجنسی رسپونس ٹیم کے اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ ٹیکس فراڈز کی جعلسازی کی وارداتوں میں 2023ئکے آخرتک 300 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس دوران بڑی تعداد میں جعلی ای میلز ٹیکس معاملات کے حل کے لئے شہریوں کو بھیجی گئیں۔
اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس ان سائبر کرمنلز نے 1500کی شناخت اور ٹیکس گوشواروں کا ریکارڈ چوری کرکے ان کے ناموں پر ری فنڈز کلیم کرلیا۔ وارداتوں کے متاثرین اس ری فنڈ وصولی سے بے خبر رہے انہیں اس وقت معلوم ہوا جب ایف بی آر افسران کی جانب سے ادائیگی کے لئے انہیں اصل نوٹس موصول ہونے لگے ۔