نمائندہ امت :
پشاور سے بین الصوبائی اغوا کار گروہ کو گرفتار کرکے ایک لڑکی کو بازیاب کرالیا گیا ہے۔ ملزمان کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے اور ان میں خواتین بھی شامل ہیں۔ گروہ کا ہدف یونیورسٹی اور کالجز کی وہ طالبات ہیں۔ جو پریشانی اور مالی مشکلات کا شکار ہوتی ہیں۔ انہیں پارٹ ٹائم نوکری کا جھانسہ دے کر یا سوشل میڈیا پر دوستی کر کے اغوا کیا جاتا ہے اور پھر فروخت کردیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ ایک ماہ قبل پشاور سے ایک طالبہ کو اغوا کیا گیا تھا۔ جس پر مدعی مسمی (س) کی مدعیت میں رپورٹ درج کرائی گئی۔ پولیس نے ایک اطلاع پر حاجی کیمپ لاہور اڈا پشاور میں چھاپہ مار کر ملزم مسماۃ (ن) دختر غلا م عباس، مسماۃ (ح) زوجہ روزی خان اور غلام عباس ولد رازی خان کو گرفتار کرلیا۔ جبکہ مغوی لڑکی کو بھی بازیاب کرالیا گیا۔ جو پشاور یونیورسٹی کی طالبہ ہے۔ پولیس کے مطابق گرفتار اغوا کاروں کا تعلق گوجرانوالہ سے۔ یہ گروہ لڑکیوں کو فیس بک پر پھنسا کر ساتھیوں کی مدد سے اغوا کرتا تھا۔
گرفتار ملزمان میں شامل خواتین نوشہرہ، جہانگیرہ کے علاوہ فیصل آباد، لاہور، گجرانوالہ اور دیگر علاقوں میں گھروں میں بھی وارداتیں کرنے میں ملوث ہیں۔ پولیس کے مطابق ملزمان کا ریکارڈ چیک کیا جارہا ہے اور ان کے خلاف پنجاب اور دیگر علاقوں میں بھی کئی مقدمات درج ہو سکتے ہیں۔ پولیس کے مطابق گروہ میں شامل خواتین خود بھی گھروں سے بھاگی ہوئی ہیں اور دو دو یا تین تین شادیاں کر چکی ہیں۔ ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ بھی نہیں۔ وہ ملک کے مختلف ہوٹلوں میں وقت گزار کر دوسرے ہوٹل منتقل ہو جاتی تھیں اور ان کے پاس گاڑی میں ہی پورا سامان رکھا ہوتا تھا۔
گرفتار ملزمان سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے اور اس میں کئی انکشافات متوقع ہیں۔ ادھر پولیس کی جانب سے اس کارروائی کو پشاور کے شہریوں سمیت عوامی و سماجی حلقوں میں کافی سراہا جارہا ہے۔ جبکہ والدین سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو موبائل فون استعمال کیلئے ضرور دیں، کہ موبائل تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے اور معلومات کا ایک موثر ذر یعہ ہے۔ لیکن اس کے نقصانات سے بھی بچیوں کو آگاہ کریں۔ بالخصوص فیس بک وغیرہ کے غیر ضروری استعمال سے منع کریں۔ کیونکہ ایک چھوٹی سی غلطی پورے خاندان کیلیے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پشاور پولیس نے منصوبہ بندی کے ساتھ حاجی کیمپ میں کارروائی کی۔ تاکہ اغوا کاروں کے فرار کا راستہ روکا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق اس واقعہ کے بعد پشاورکے ہوٹل مالکان بھی الرٹ ہو گئے ہیں اور انہیں پولیس کی جانب سے ہدایت دی جا چکی ہے کہ غیر متعلقہ افراد اور مشکوک افراد کو ٹھہرنے کیلئے کمرہ نہ دیا جائے اور اگر شک ہو تو فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی جائے۔ واضح رہے کہ محرم الحرام کے دوران پہلے ہی شہر میں سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور ایسے میں ہوٹل بھی چھ محرم کے بعد بند کیے جانے کا امکان ہے۔
اے ایس پی فقیر آباد محمد علیم نے والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی بچیوں کی سوشل میڈیا پر ایکٹوٹیز پر نظر رکھیں۔ کیونکہ اغوا کار گروہ کا زیادہ نشانہ سوشل میڈیا پر موجود طلبا و طالبات ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں اپنا شکار کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس نیٹ ورک کے کارندے پنجاب، خیبرپختون اور سندھ میں موجود ہیں۔ جن کے خلاف کارروائی کیلئے دیگر صوبوں کی پولیس سے رابطے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اعلیٰ حکام سے درخواست کی جائے گی۔ کیونکہ گروہ نے یہ طریقہ اپنایا ہے کہ جس صوبے سے لڑکیوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔ انہیں دوسرے صوبے میں فروخت کیا جاتا ہے۔