نواز طاہر :
پاکستان کی سیاسی و پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ملک کی سب سے بڑی صوبائی اسمبلی پنجاب میں اپوزیشن نے ریکوزیشن پر اجلاس بلا کر اس میں شرکت کے بجائے خود ہی بائیکاٹ کردیا۔ لیکن ٹی اے ڈی لینے کیلئے آدھے سے زائد اپوزیشن اراکین نے رجسٹر پر حاضری بھی لگائی جسے اسپیکر نے بددیانتی اور بے ایمانی قراردیتے ہوئے شعبہ قانون کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے کا قانونی پہلو پیش کریں کہ تقریباً پونے تین کروڑ روپے کے اجلاس کے اخراجات اور ایوان میں آئے بغیر ٹی اے ڈی اے لینے پر کیا قانونی راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟ جبکہ یہ قومی خزانے کا یہ پیسہ قوم کی امانت ہے۔
دوسری جانب مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب میں اپوزیشن کے اراکین تاحال سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کا حصہ ہونے پر دو رائے رکھتے ہیں جس پر حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن بلا سمت چلنے والا گروہ اور کثیر الجہتی سوچ کا مغلوبہ ہے۔
سپریم کورٹ کے تیرہ ہ رکنی بنچ کے فیصلے کے بعد اپوزیشن نے گزشتہ ہفتے مہنگائی اور امن و امان کی صورتحال پر بحث کے ایجنڈے کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے اجلاس کیلئے ریکوزیشن دی تھی جس پر حکومتی حلقوں کی طرف سے بھی خیال کیا جارہا تھا کہ اس اجلاس میں اپویشن کی ہنگامہ خیز شرکت ہوگی۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے حکمتِ عملی بھی بنائی گئی تھی۔ یہ اجلاس اسپیکر نے پیر کی سہ پہر تین بجے طلب کیا تھا لیکن اپوزیشن اراکین نے قائد حزبِ اختلاف کی قیادت میں اسمبلی کے مرکزی گیٹ پر’ حقیقی پنجاب اسمبلی‘ کا بینر لگا کرجتماع کیا۔ وہیں پر اپنی ریکوزیشن پر بلائے جانے والے اجلاس کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کیا۔
اس ’حقیقی پنجاب اسمبلی‘ کے اجلاس میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین اسمبلی، پی ٹی آئی رہنما اور کارکن بھی موجود رہے اور نعرہ بازی کرتے رہے۔ اس ضمن میں اسمبلی سیکرٹریٹ ذرائع کے مطابق یہ اجتماع چونکہ اسمبلی سیکریٹریٹ کی چار دیواری کے باہر تھا، اس لئے اسپیکر نے اس ضمن میں کوئی اقدام نہیں کیا۔ البتہ سیکورٹی برقرارکھی۔ اس دوران اپوزیشن اراکین اسمبلی سیکریٹریٹ میں آتے جاتے رہے اور میڈیا سے گفتگو بھی کرتے رہے۔ اسمبلی کے باہر لگائی جانے والی ’حقیقی پنجاب اسمبلی‘ میں جب اپوزیشن لیڈر ملک احمد خاں بھچر سے استفسار کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے بعد اب پنجاب اسمبلی میں ان کی حیثیت کیا ہے، وہ سنی اتحاد کونسل ہیں یا ان کی پارلیمانی پارٹی پی ٹی آئی ہے ؟ تو انہوں نے انہوں نے کہا کہ ’’بلا شبہ پی ٹی آئی ہے۔‘‘ جبکہ اسی’ حقیقی پنجاب اسمبلی ‘ میں اسپیکر کے گائون میں شریک اعجاز شفیع سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ابھی تک ہماری حیثیت سنی اتحاد کونسل کی ہے‘‘۔
اسی دوران ایک اور رکن نے کہا کہ ’’ہم سنی اتحاد کونسل بھی ہیں اور پی ٹی آئی بھی ہیں‘‘۔ اس کے برعکس جب وزیر اطلاعات عظمیٰ زاہد بخاری سے اپویشن کی پارلیمانی جماعت کی حیثیت دریافت کی گئی اور اسمبلی کے اپنے ہی بلائے ہوئے اجلاس کے بائیکاٹ کے بابت پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’انہیں ( اپوزیشن ) کچھ پتہ ہی نہیں۔ ان کی کوئی سوچ اور سمت ہی نہیں ، یہ تو ایک مغلوبہ اور کھچڑی ہیں ، جو یہ تک نہیں سمجھتے کہ انہوں نے خود ریکوزیشن دی ہے اور بلاوجہ اسی اجلاس کا بائیکاٹ بھی کررہے ہیں۔ انہیں صرف لغویات بولنا اور شور و غل کرنا آتا ہے۔ ان کی پہلے ہی کوئی سوچ اور سمت نہیں تھی۔ باقی کسر سپریم کورٹ کے فیصلے نے نکال دی ہے۔ یہ جو حرکت کررہے ہیں یہ کسی پاگل اور دیوانے کی ہی حرکت ہوسکتی ہے۔ سیاسی جماعت یا سیاسی کارکنوں والی کوئی بات یا رویہ نہیں‘‘۔
خزانے ، قانون اور پارلیمانی امور کے وزیر میاں مجتبیٰ ٰ شجاع الرحمان نے کہا کہ ’’اجلاس کا بائیکاٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس کا جواب تو بائیکاٹ کرنے والے ہی دے سکتے ہیں۔ اور شائد ان کے پاس بھی اس کا دلیل کے ساتھ کوئی جواب نہ ہو۔ ماضی میں تو ایسی کوئی مثال نہیں کہ خود ہی ریکوزیشن بھی دیں اور خود ہی بائیکاٹ بھی کردیں۔ جہاں تک ان کی پارلیمانی حیثیت کا تعلق ہے تو وہ سنی اتحاد کونسل کی ہے۔ یہی انہوں نے حلفیہ بیان جمع کروائے ہیں، جبکہ قانون کے تحت تو ایک بار یا جانے والی بیان حلفی تبدیل نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہ تبدیل کرنا فلوکراسنگ ہے۔ جیسا کہ حمزہ شہباز کو ووٹ دینے پر اس وقت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ یہ اراکین فلورکراسنگ کے مرتکب ہوئے اور ان کی رکنیت منسوخ کردی تھی۔