نواز طاہر:
معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر سے فراڈ اور ان پر تشدد و ڈکیتی کی مرکزی ملزمہ آمنہ عروج کو لوٹے جانے والے سامان کی برآمدگی اور تفتیش کیلئے تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔ جبکہ باقی گیارہ ملزمان کو شناخت پریڈ کیلئے جیل بھجوا دیا گیا۔ تاہم پولیس ملزمہ آمنہ عروج کے ساتھی اور ماسٹر مائنڈ ملزم حسن شاہ کو گرفتار نہیں کرسکی۔ البتہ آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ملزم حسن شاہ کی گرفتاری کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق کیس کو انتہائی احتیاط کے ساتھ آگے بڑھایا جارہا۔ ان ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا کہ واردات کی ریہرسل بحریہ ٹائون لاہور میں کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر کے مطابق وہ ڈرامائی انداز میں اغوا ہوئے اور ایسے ہی انداز میں ملزموں کے چنگل سے نکلے۔ جب کہ چوبیس گھنٹوں کے اندر بارہ ملزمان گرفتار بھی کرلیے گئے۔ مدعی خلیل الرحمان قمر کے مطابق انہیں دھوکے کے ساتھ گھر بلا یا گیا، تشدد کیا گیا، تاوان مانگا گیا۔ ان سے نقدی، گھڑی سمیت ضروری اشیا چھینی گئیں اور بینک سے بھی رقوم نکلوائی گئیں۔ اس واردات کا مقدمہ اکیس جولائی کو درج کیا گیا اور اس سے اگلے روز اعلیٰ سطحی پریس کانفرنس میں بارہ ملزم گرفتار کرنے کا انکشاف کیا گیا۔ جبکہ یہ واردات ایف آئی آر کے مطابق پندرہ جولائی کو ہوئی تھی۔ واقعے پر سوشل میڈیا پر ایک شور برپا ہوا اور یہ ہائی پروفائل کیس بن گیا۔
پولیس کے مطابق ملزموں کا سراغ لگانے میں ٹیلی فون ریکارڈ معاون رہا۔ اس کے علاوہ سی سی ٹی وی فوٹیج بھی مدد گار رہی۔ مدعی کے مطابق آمنہ عروج نے انہیں ٹریپ کیا۔ جبکہ پولیس کے مطابق آمنہ عروج کے ساتھ گروہ میں ماسٹر مائنڈ حسن شاہ ہے اور یہ گروہ دولت مند افراد کا شکار کرتا ہے۔ گروہ کے قبضے سے اسلحے کے ساتھ ساتھ ٹیمپرڈ گاڑیاں بھی برآمد ہوئی ہیں جن کے بارے میں خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ گاڑیاں بھی اس گروہ کا شکار بننے والوں کی ہوسکتی ہیں۔ اسی دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ واردات کی ابتدائی پلاننگ لاہور کے علاقے جوہر ٹائون کے ایک بدنام شیشہ کیفے میں ہوئی۔ یاد رہے کہ لاہور میں شیشہ کیفے پر پابندی ہے۔ لیکن ایسے کئی کیفے چل رہے ہیں جہاں نہ صرف شیشہ اور بلکہ منشیات کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق کیس میں کئی سوالیہ نشان ہیں۔ مرکزی ملزمہ آمنہ عروج کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے جو لاہور میں معمولی سطح کی ماڈل ہے اور راتوں رات امیر بننے کی خواہاں ہے۔ آمنہ عروج کی ماڈلنگ کی حیثیت کے بارے میں شوبز کے ذرائع بھی تصدیق کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ ذرائع نے بتایا کہ وہ خلیل الرحمان قمر سے متعدد بار چھوٹے موٹے کردار حاصل کرنے کیلئے کوشش کرچکی تھی۔ کیونکہ خلیل الرحمن قمر کی پروڈیوسرز پر دھاک ہے اور وہ اپنی مرضی کے خلاف کوئی ایکٹر شامل نہیں ہونے دیتے۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ کہانی کا آغاز جوہر ٹاون کے اس کیفے سے ہوا جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے ہوتے اور ڈانس پارٹیاں بھی کرتے ہیں۔ وہیں ٹی وی پر خلیل الرحمان قمر کو دیکھ کر پلاننگ کی گئی جس میںآمنہ عروج نے اپنی بہن مریم اور دوست شمائل کو بھی ان کے کردار سونپے۔ جبکہ حسن شاہ اور ممنون کے آٹھ مزید دوست ذیشان، جاوید، تنویر، فلک شیر، قیصر عباس، رشید اور میاں خان کو بھی ان کے کردار بتائے گئے جن کی باقاعدہ ریہرسل بحریہ ٹائون کے ایک فلیٹ میں کی گئی۔ حسن شاہ اور دیگر ساتھیوں نے تین گاڑیوں، وائرلیس سیٹ، جدید رائفلوں اور گولیوں کا انتظام کیا۔
آمنہ عروج نے بڑے مودبانہ انداز میں خلیل الرحمن قمر کو گھر آنے کی دعوت دی۔ اس کیلئے ایک نہیں، کئی بار فون کالیں کی گئیں۔ اور یوں خلیل الرحمان قمر چنگل میں پھنس گئے۔ ملزمان نے شواہد ضائع کرنے کے لئے فون کا ڈیٹا ڈیلیٹ کیا اور آئس کا نشہ بھی کیا۔ یہی نشہ ان کی پلاننگ کا کمزور حصہ ثابت ہوا۔ انہوں نے خلیل الرحمان قمر کو ڈرانے کے لئے جب ان کے پائوں کے قریب گولی چلائی تو خلیل الرحمان قمر نے ایسا ظاہر کیا کہ حالت غیر ہوگئی ہے۔ اس پر نشے میں چُور ملزمان نے سمجھا کہ انہیں دل کا دورہ پڑا ہے اور مغوی کے مرنے کے خوف سے تاوان کی رقم ایک کروڑ روپے سے کم کرکے دس لاکھ روپے کردی۔ بعد ازاں مزید انتظار کی بجائے گاڑی میں ڈال کر سڑک پر پھینک کر فرار ہوگئے جبکہ تشدد وہ پہلے ہی کرچکے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزموں کو پہلے ہی حراست میں لیا گیا تھا اور کارکردگی ظاہر کرنے کیلئے گرفتاری سے ایک روز پہلے ایف آئی آر درج کی گئی۔ اسی دوران طرفین کے موبائل فونوں سے اہم ڈیٹا بھی حاصل کیا گیا۔کیس میں پیشرفت جاننے کی غرض سے خلیل الرحمن قمر سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کا فون یا تو مسلسل مصروف ملایا پھر کال وصول نہیں کی گئی۔