امت رپورٹ :
حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر اسرائیل کے خلاف ایران کی جوابی کارروائی ایک ہفتے کے اندر متوقع ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور امریکہ اس ہفتے کے آخر میں تل ابیب پر ایک غیر متوقع ایرانی جوابی حملے کے دفاع کی تیاری کر رہے ہیں۔
ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ کوئی بھی ردعمل چند دنوں سے ایک ہفتے میں متوقع ہے۔ اس دوران ایرانی سرکاری ٹی وی کے ایک اینکر نے کہا ہے کہ آنے والے گھنٹوں میں، دنیا غیر معمولی مناظر اور انتہائی اہم پیش رفت کا مشاہدہ کرے گی۔ مشرق وسطیٰ کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق تیرہ اپریل کو اسرائیل پر ایرانی ڈرون اور میزائل حملے سے قبل دونوں ممالک نے پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنی فضائی حدود بند کردی تھیں۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے۔
جیسے ہی دونوں ممالک پڑوسیوں کے ساتھ اپنی فضائی حدود بند کرتے ہیں تو یہ اس بات کا اشارہ ہوگا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ ممکنہ ایرانی حملے کے پیش نظر اسرائیل میں خاصا خوف پایا جاتا ہے۔ عوام کو جہاں راشن ذخیرہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور بم پروف بنکروں کی صفائی ہورہی ہے، وہیں اسرائیل فوج نے الرٹ جاری کیا ہے اور ہنگامی صورتحال کی تیار ی کے بارے میں ایک ویڈیو جاری کی ہے۔
دوسری جانب امریکہ متوقع ایرانی حملے میں اسرائیل کے دفاع کے لئے مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی پوزیشنیں مضبوط کررہا ہے۔ جس کے تحت یو ایس ایس ابراہم لنکن کیریئر اسٹرائیک گروپ، سنٹرل کمانڈ کے علاقے میں یو ایس ایس تھیوڈور روزویلٹ کیریئر اسٹرائیک گروپ کی جگہ لے گا۔
اسی طرح امریکہ نے اضافی بیلسٹک میزائل، دفاعی صلاحیت کے حامل کروزر اور ڈسٹرائر، امریکی یورپی کمانڈ اور یو ایس سنٹرل کمانڈ کے علاقوں میں تعینات کردیے ہیں۔ جبکہ ایک اضافی فائٹر ا سکواڈرن اور اضافی زمینی بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم تعینات کئے جارہے ہیں۔ اس سے قبل امریکی وزیر دفاع آسٹن نے کہا تھا ’’دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے اضافی جنگی جہازوں، بشمول تباہ کن کروزر اور لڑاکا طیاروں کو مشرق وسطیٰ میں بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ انہیں ایرانی حملوں کے خلاف اسرائیل کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے گا‘‘۔
ادھر تہران میں اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنائے جانے کا طریقہ کار، جو اب تک معمہ بنا ہوا تھا، آخرکار ایران نے سرکاری طور پر اس حوالے سے لب کشائی کی ہے اور کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو کم فاصلے سے مار کرنے والے میزائل (پروجیکٹائل) سے نشانہ بنایا گیا۔ تاہم اس سے ایک روز پہلے ہی مڈل ایسٹ آئی نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کردیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کے کمرے کو پروجیکٹائل (کم رینج والے میزائل) سے نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ میں تین عینی شاہدین کا حوالہ دے کر بتایا گیا تھا کہ انہوں نے عمارت میں دھماکے سے پہلے میزائل سے مطابقت رکھنے والی آوازیں سنی۔ حملے کے نتیجے میں اسماعیل ہنیہ کے کمرے کی چھت اور بیرونی دیوار جزوی طور پر گر گئی تھی۔ اب ایرانی حکام نے بھی اس خبر کی تصدیق کردی ہے۔ یوں اس حوالے سے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز اور برطانوی اخبار ٹیلی گراف دونوں کی رپورٹس جھوٹی نکلیں، جن میں کہا گیا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنے کے لئے ان کے کمرے میں بم نصب کئے گئے تھے۔ ماضی میں بھی بالخصوص نیویارک ٹائمز کی بہت سے خبریں غلط ثابت ہوتی رہی ہیں۔
ایک طرف جہاں امریکہ، اسرائیل کی مدد کے لیے مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کررہا ہے تو دوسری جانب اس بات کو بھی یقینی بنارہا ہے کہ ایران کے اتحادیوں کو کمزور کردیا جائے اور اسرائیل کے خلاف ایرانی کارروائی میں وہ بڑا رول ادا کرنے سے قاصر رہیں۔ سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق روس، حوثی باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ روس گزشتہ ماہ کے آخر میں یمن میں حوثی باغیوں کو میزائل اور دیگر فوجی سازوسامان فراہم کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ لیکن امریکہ اور سعودی عرب کے دباؤ پر آخری لمحات میں اس سے دستبردار ہو گیا۔
دوسری جانب ایران کے ساتھ ساتھ حزب اللہ بھی اسرائیل سے حساب چکانے کی تیاری کررہی ہے۔ سعودی عرب کی الحدث کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ نے بیروت کے جنوبی مضافات میں پارٹی قیادت کے عہدوں کو خالی کر دیا۔ جبکہ حزب اللہ بیروت کے جنوبی مضافات سے فوجی ساز و سامان بھی منتقل کررہی ہے۔ حزب اللہ نے اسرائیل پر بڑے پیمانے پر راکٹ داغے ہیں۔
گزشتہ 48 گھنٹوں میں حزب اللہ کی طرف سے یہ پہلا حملہ تھا۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے کہا ہے کہ ’’میں شہید ہونے کے لیے تیار ہوں۔ دشمن کو ہمارے جواب کا انتظار کرنا چاہیے‘‘۔ اسرائیلیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا ’’تمہیں بہت رونا ہوگا۔ کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ تم نے کون سی ریڈ لائنز عبور کردی ہیں۔ اب ہمارے جواب کا انتظار کرو۔ ہم تمام محاذوں پر کھلی جنگ میں ہیں اور یہ جنگ ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے‘‘۔